’’دینو ماچھی کمی کمین، ڈھور ڈنگروں سے ذرا اوپر کی مخلوق، مزاروں تک کے ہاتھوں سے بے عزت ہونے والا۔ ‘‘۵۱
اس اقتباس میں نچلی ذات کے افراد کے تعارف میں ترتیب پانے والی زبان کو دیکھا جا سکتا ہے جو اِن کے لئے حقارت اور نفرت کو بھی واضح کرتی نظر آتی ہے۔ اِسی طرح ملک گام کا تعارف دیکھیں :
’’دراصل ملک گام بنا جاگیر کا نواب تھا۔ نسل در نسل تقسیم کے بعد آباؤ اجداد کی بڑی جاگیروں سے اُس تک ایک مختصر سا قطعۂ ارضی بھی منتقل ہوسکا۔ اس کے پاس نہ تو دولت اور جاگیر سے پخت کی ہوئی طاقت اور اقتدار موجود تھا اور نہ ہی روایات و اقدار سے ترکیب پائی ہوئی تقویت۔ ‘‘۵۲
اِس اقتباس میں جاگیرداری کے اُس زوال کو بھی دیکھا جا سکتا ہے جو نسل در نسل زمین کی تقسیم کے بعد دیکھنے میںا رہی ہے اور اب یہ نئے جاگیر دار محض وہ نشانیاں ہیں جو اسلاف کی طاقت اور نام نہاد شان و شوکت کے قصیدہ خواں اور وارث ہیں۔ جاگیردار طبقے کے یہاں محنت کش طبقے کو حاصل مقدور بھر زندگی کے وسائل بھی جس نوع کی عنایت اور بخشش کا احساس لئے ہوئے ہیں اُس کی مثال دیکھیں :
’’باشاہو! ان کمّیوں کے نخرے۔ یہ ترکھانوں کا ٹبر جس احاطے میں بیٹھے ہیں وہ پردادا جی نے دادا جی کی پیدائش پر بخشش میں دیا تھا۔ کمّیوں کے ہر خاندان کو دو، دو بیگھہ زمین دی، جس جس احاطے میں بیٹھے تھے اُس کا مالک بنا دیا۔ پر ہوئے نا وہی نچلی ذات کے۔ ‘‘۵۳
مادی وسائل میں عدم مساوات کے نتیجے میں کم حیثیت طبقے سے نفرت کا یہ احساس دیہی سماج میں راسخ ہے اور نچلی ذات سے تعلق اپنی جگہ ایک ہزیمت ہی نہیں گالی کا درجہ رکھتا ہے۔ افسانے میں ملک صاحب کا یہ مختصر سا مکالمہ بھی دیکھیے جو جاگیردارانہ ذہنیت کو واضح کر رہا ہے:
’’جدی پشتی رعیت ہیں۔ باشاہو! اپنی جدی پشتی رعیت۔ ‘‘۵۴
یہ وہ راسخ احساسِ برتری ہے جو یہ طبقہ اپنا استحقاق سمجھتا ہے اور مقابل طبقے کو غلام دَر غلام رکھنے کا قائل ہے۔
افسانہ ’’گندا کیڑا‘‘ جاگیردارانہ سماج کی اُس سفّاکی کو موضوع بنا رہا ہے جہاں نچلے طبقے کی عورتیں جاگیرداروں کے لئے عیاشی کا سامان ہیں جنہیں استعمال کے بعد پھینکنے کا ملال بھی موجود نہیں ہے۔
افسانہ ’’کھندے‘‘ کا موضوع بھی جاگیردارانہ سماج میں نچلے طبقے کی ذاتوں کو استعمال کی شے اور اُن کی تذلیل کو استحقاق سمجھتا ہے۔ عارفے مراثی جیسے بہت سے کردار نچلے طبقے کے نمائندہ ہیں جن کی ذلت سے ہی جاگیردار کی حاکمیت کا پتا ملتا ہے:
’’ملک نے گھڑ گھڑ گھڑک پورے زور سے حقّہ گر گڑا کر چاندی کی نَے اُگل کر دھول میں تھوکا۔ ’’عارفے عارفے میراثی۔ ‘‘، ’’جی بادشاہ جی ‘‘عارفہ جیپ کے ٹائر سے اُکھڑ کر سامنے ڈھیر ہو گیا۔ ‘‘۵۵
’’ملک کی بھویں ترچھی ہو گئیں۔ شکاری کتوں کی باگیں ڈھیلی پڑ گئیں۔ باہر تڑپتی زبانیں ، اُٹھے ہوئے کان، سڈول کمر، جگمگاتی جلد میں سانس لیتی تڑپتی نسیں ، گلے میں بندھی گھنگھریوں کی چھنکار اور قدموں کی دگڑ دگڑ میں عارفے کی چیخیں لپٹ گئیں۔ ’’مر گیا نہیں بچتا۔ حلقا ہو کے مرساں۔ ‘‘۵۶
مندرجہ بالا دونوں اقتباسات میں نظر آنے والے دونوں مناظر جاگیردار کے خوف اور حاکمیت کے احساس کو عیاں کر رہے ہیں۔
’’انتخاب ‘‘ طاہرہ اقبال کا ایسا افسانہ جو دیہی سماج میں الیکشن سے پہلے اور بعد کے اُن مناظر کو اپنی حقیقی صورت میں سامنے لا رہا ہے جو نام نہاد جمہوریت کے پسِ پردہ اُن عوامل کی نشان دہی کرتا ہے جہاں حق رائے دہی فرد کا معاملہ نہیں برادری یا جاگیر داروں کی منشا سے مشروط ہو جاتا ہے:
’’بھائیو ! گاؤں کا چلن بدل گیا ہے۔ لوگ بے لحاظ اور خود سر ہو چکے ہیں۔ ہر گاؤں میں مڈل اور ہائی سکول کھل رہے ہیں۔ ہر تحصیل ہیڈ کوارٹر میں کالج بن گئے ہیں۔ کمی کمین کے لڑکے پڑھ لکھ کر کلرک اور وکیل بن رہے ہیں۔ اب تو دو، دو ایکڑ والے بھی ہم سے توقع رکھتے ہیں کہ ہم خود جاکر اُن سے ووٹ مانگیں۔ ‘‘۵۷
اقتباس میں اُس جاگیردارانہ ذہنیت کی عمدہ عکاسی ملتی ہے جو تعلیم کو اپنے لئے ایک بڑا حریف خیال کرتی اور راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ گردانتی ہے۔ پھر نچلے طبقے کے افراد کے لئے یہ حقارت آمیز لہجے اور لغّت بھی دیہی سماج کا ایسا معمول ہے جس سے خود اِس کا شکار طبقہ بھی سمجھوتہ کر چکا ہے:
’’ہمارے پرکھوں سے الیکشن کے چند اصول طے ہیں … عورتوں کے ووٹ کبھی نہیں ڈلے اب کے بار بھی نہیں ڈالے جائیں گے۔ کمیوں کے ووٹ آدھے آدھے تقسیم ہوں گے۔ گاؤں میں کل پچیس ووٹ کمیوں کے ہیں۔ بڑے ووٹوں میں تیرہ آپ کی طرف جائیں گے اور بارہ ہماری طرف اور چھوٹے ووٹوں میں تیرہ ہماری طرف اور بارہ آپ کی طرف۔ اپنے اپنے مزارعوں اور ٹھیکے داروں کے ووٹ پکے ہیں۔ انہیں توڑنے کی کوشش لڑائی کا آغاز سمجھا جائے گا۔ ‘‘۵۸
افسانہ ’’چرواہا‘‘ گاؤں کے اُس مفلس اور کمزور چرواہے کی کہانی ہے۔ اس چرواہے کے کردار میں نچلے طبقے کے اُس بے توقیر فرد کی ایسی صفات موجود ہیں جو اُس کی ذلت کو ایک طبقے کا مشغلہ بنا دیتی ہیں :
’’وہ اتنا بے وقعت اور حقیر تھا کہ بے وقعتی اور حقارت از خود اُس سے شرماتی تھی۔ گویا اُس کی ذات تشدد پر اُکسانے والا خود بڑا محرک تھی۔ ذلیل کرو، ذلیل کرو کا چلتا پھرتا اشتہار۔ پتہ نہیں ایسے انسان خدا پیدا کر کے لوگوں کو گناہ گار بننے کا موقع کیوں فراہم کرتا ہے جنہیں دیکھ کر خواہ مخواہ ہاتھوں میں کھجلی ہونے لگے اور زبان نئی نئی گالیوں کا اختراع کرنے لگے۔ ‘‘۵۹
افسانے میں جاگیردار کے تشدد کی ایک جھلک دیکھیں :
’’وہ بیرونی دروازے کی جانب بھاگا۔ لیکن انہوں نے بڑھ کر بالوں سے کھینچ لیا اور زمین سے دو فٹ اوپر اُٹھا کر پختہ دیوار پر پٹخا۔ سر سے مٹھی بھر بال نکل کر فضا میں اُڑنے لگے اور خون کی دھاری دیوار پر چلتی ہوئی قطرہ قطرہ فرش پر ٹپکنے لگی۔ چودھری نے بڑھ کر شکاری بوٹ والا پاؤں کنپٹی پر دھر دیا اور سر کو یوں مسلنے لگا جیسے کسی ٹاٹ پر بوٹ صاف کر رہا ہو۔ اُس کے منہ اور ناک سے خون کے لوتھڑے اُبل کر سنگِ مر مر کے شفاف فرش کو آلودہ کر گئے۔ ‘‘۶۰
جاگیر دار کے کردار کا ایک اور تصور طاہرہ اقبال کے افسانے ’’عزت‘‘ میں دیکھا جا سکتا ہے جہاں چودھری عزت کا معیار جنسی برتری میں پوشیدہ سمجھتا ہے۔ افسانے میں جاگیر دارانہ سماج کے اُسی نام نہاد عزت کے معیار کو موضوع بنایا گیا ہے جہاں چودھری اپنے نابالغ سکول جانے والے بیٹے کی نہ صرف شادی کرتا ہے بلکہ یہ خواہش بھی رکھتا ہے کہ وہ جنسی طور پر ایک بھرپور اور بر تر مرد کا کردار ادا کرے۔ اُس کے نزدیک مرد ہونے یا برتر ہونے کا معیار ہی اِس برتری میں پوشیدہ ہے:
’’نذیراں بی بی! مرد کبھی عورت سے چھوٹا ہوا ہے؟ اِدھر جوانی کا سال لگا اُدھر وہ اپنی ماں سے بھی بڑا ہو گیا۔ جتنی اونچی گردن اُٹھا کے بیٹے کو دیکھتی ہے اتنا ہی ڈرتی ہے۔ ایک یہ قاسو ہے سسرا جو اپنی رَن سے بھی چھوٹا ہو گیا ہے۔ بے غیرت مجھے تو اپنا نطفہ ہی نہیں معلوم پڑتا۔ کسی کھسرے کا جنا ہے تو نے۔ ‘‘ ۶۱
’’کہتا ہے لڑکے مذاق اُڑاتے ہیں کہ تیری ابھی سے شادی ہو گئی۔ کیوں شادی مرد کے بچے کی نہیں ہوتی۔ تو کیا کھسروں کی ہوتی ہے؟‘‘۶۲
’’بارہ تیرہ سال کا لڑکا بالغ ہو جاتا ہے۔ یہ ہے ہی زنخا۔ ورنہ بالو جیسی عورت سامنے ہو تو آٹھ سال کا لڑکا بھی ایک جھٹکے میں جوان ہو جائے۔ ‘‘۶۳
افسانے میں جاگیردارانہ ذہنیت کی کئی جھلکیاں دیکھی جا سکتی ہیں جہاں تعلیم ایک غیر ضروری چیز ہے۔ اصل قوت علم کی نہیں جائیداد کی ہے:
’’نہ تو نے دو ہزار کا چپڑاسی بننا ہے تو تین ہزار کا کلرک لگنا ہے، اِن کتابوں میں تو ڈھونڈ تا کیا ہے۔ ڈھائی مربعے کا اکیلا وارث۔ ڈیڑھ پکا مربع ایک گھوڑی پال۔ مربعے بھی سونے کے بھرے تھال۔ تو یہ کتابیں چھوڑتا کیوں نہیں۔ ‘‘۶۴
یہ وہ روایتی جاگیردار ذہن ہے جو شعور کا معیار علم کی بجائے زمین کو سمجھتا ہے اور اِس کے حصول کے لئے ہر طرح کے اخلاقی، سماجی تقاضوں کو بالائے طاق رکھنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ مجموعی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ طاہرہ اقبال کے یہاں وسطی پنجاب کے اُس زوال پذیر جاگیردارانہ سماج کی عمدہ عکاسی کی گئی ہے جو اب وسیع جاگیردار کے مالک نہیں لیکن اُن کے ہاں تفاخر اور برتری کے سارے ذرائع طاقت اور زمین سے جڑے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر سلیم اختر کا افسانہ ’’گندا خون ‘‘ بھی جاگیر دارانہ سماج کی عمدہ عکاسی کر رہا ہے۔ افسانہ اپنے موضوع اور بیان کے اعتبار سے اگرچہ قاسمی صاحب کے افسانے ’’لارنس آف تھیلیبیا ‘‘ سے بعض مماثلتیں رکھتا ہے لیکن لارنس اور تھیلیبیا جاگیردارانہ سماج کی اُس سفّاکی کا بیان ہے جو جاگیردار کو ایک مقتدر اور طاقت ور کردار کے طور پر سامنے متعارف کروا رہا ہے۔
ناظم خان کے دادا اور بڑے خان صاحب کا یہ تعارف اُس کردار کے تشخص کا بیان ہے: