فکشن میں کردار سازی کی بحث اتنی ہی قدیم ہے جس قدر خود فکشن کی روایت۔ کرداروں کی پیش کش، تشکیل اور ضرورت کے مباحث ہمیشہ اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ مغربی تنقید کی قدیم روایت میں جھانکیں تو ارسطونے المیہ پر بحث کرتے ہوئے جب اُس کے عناصرِ ترکیبی گنوائے تو پلاٹ کے بعد دوسرا اہم عنصر ’’کردار‘‘ کو ہی گردانا۔ ۱آج کے عہدِ جدید میں اُردو فکشن کے نمایاں نقاد شمس الرحمن فاروقی بھی کردار نگاری کے ضمن میں کرداروں کی بے چہرگی اور عدم شناخت کو ہدفِ تنقید بناتے دکھائی دیتے ہیں۔ ۲جدید افسانے کے ایک اور اہم ناقد محمد حمید شاہد تو یہ سوال بھی اُٹھاتے ہیں کہ کیا کرداروں کے منصب پر محض انسان ہی فائز ہو سکتے ہیں ؟
’’میں ، ’وہ‘، ’تیرا‘، ’لنگڑا آدمی‘، ’الف‘، ’ب‘ وغیرہ تو کرداروں کی فہرست میں شامل ہیں مگر پھول، درخت اور جڑیں ، کتے، بھیڑ بکریاں اور سٹور، حتیٰ کہ وقت اور لا وقت، خیال اور جذبے کا کرداروں کی حیثیت سے مطالعہ کیا جانا اہم نہ سمجھا گیا۔ ‘‘۳
اس کے علاوہ کرداروں کے ساتھ مصنف کی وابستگی اور اُس کی تشکیل میں معروضیت اپنی جگہ اہم سوال رہے ہیں۔ کرداروں کی سماجی حیثیت کے تعین میں انہیں خیر و شر کا نمائندہ بناتے ہوئے بسا اوقات مصنف اپنی منشا قاری پر مسلط کر دیتا ہے اور ایسی صورتِ حال میں بقول سہیل بخاری ’’قاری کی توجہ کہانی سے ہٹ کر مصنف کی طرف مبذول ہو جاتی ہے۔ ‘‘۴ کردار نگاری کے ضمن میں کئی طرح کے تصورات سامنے آتے ہیں۔ کرداروں کی شناخت یا تعین میں درجہ بندی کے کئی معیارات ہیں۔ بعض اوقات صفات کی بنیاد پر کردار کا تعین ہوتا ہے(مثبت اور منفی) تو بعض اوقات پیشوں کے اعتبار سے (موچی، نائی، ڈاکٹر، اُستادوغیرہ)۔ اِسی طرح بعض اوقات یہ تقسیم رشتوں اور منصب کو پیشِ نظر رکھ کر کی جاتی ہے (ماں ، باپ، حکیم، شاعر، ماموں وغیرہ وغیرہ) اور بعض اوقات طبقات کی بنیاد پر (مفلس، بادشاہ، جاگیردار، کمی)۔
زیرِ مطالعہ کردار دراصل ایک طبقے کی نمائندگی کرنے والا کردار ہے جسے برصغیر پاک و ہند میں انگریز راج کی پیداوار قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ایشیا اور افریقہ میں نوآبادیاتی نظام کے قیام، رسوخ اور عمل داری میں وہاں کے مقامی طبقہ اعلیٰ کا کردار بے حد اہمیت کا حامل رہا ہے اور شاید یہ بہت بڑی اور اہم وجہ ہے کہ اقوامِ یورپ ان وسیع رقبوں اور بڑی بڑی آبادیوں پر اپنے چند سپاہیوں اور منتظمین کی مدد سے کامیابی کے ساتھ حکومتی کرتی رہی ہے۔ رونلڈ راسبنس کے مطابق:
نو آبادیاتی انتظامیہ کے ذمے اہم ترین کام مقامی با اثر افراد کا کھوج لگانا اور ان کی حمایت کا حصول ہوتا تھا اور یہی نو آبادیاتی حکومتوں کی کامیابی کا اہم ترین راز بھی تھا۔ اس حمایت کے عوض نوآبادیاتی حکومتوں نے با اثر افراد کر ہر ممکن معاونت ودستگیری کی نیز تمام تر حکومتی پالیسیاں انہی کے کمرشل اور زرعی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مرتب کی گئیں کیونکہ امن عامہ کے قیام کے لئے ان افراد کی حمایت استعماری قوتوں کے لئے اشد ضروری تھی۔ ۵
یہ بات ہماری توجہ کا ایک بہت اہم امر کی جانب مبذول کراتی ہے اور اور ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس خطہ میں انگریز راج کن بنیادوں پر قائم ہوا اور پھر نمو پا کر ایک مضبوط درخت بن گیا اور اس سامراجی درخت کی پرورش و پرداخت میں ہندوستانی اشرافیہ نے کوئی کسر باقی نہ اُٹھا رکھی۔ اس کے نتیجہ میں غلامی کا طوق تقریباً ایک صدی پر محیط ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ کچھ مفاد پرست عناصر نے ذاتی فائدے اور مالی وسیاسی معاونت کے عوض انگریز سرکار کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا اور خطے کی آزادی وسالمیت کی قیمت وصول کی۔ اس اشرافیہ کے ساتھ ساتھ ہمارے سامنے ہندوستانی آبادی کی ایک بہت بڑی تعداد آتی ہے جو اس حد تک بھی با شعور نہیں کہ اُن چہروں کو شناخت کر سکے جو اُن کے درمیان کالی بھیڑوں کا کام کر رہے تھے بلکہ وہ ان لوگوں کی مرضی و منشا پر چلتے تھے اور اس طبقے کے وسیلہ سے اپنی زندگی کی راہ متعین کرتے تھے۔ یہی وہ بڑی وجہ ہے جس نے برطانوی حکومت کو مجبور کیا کہ وہ عوامی معاونت اور امن عامہ کے لئے اُن کے نمائندوں کی خرید کا انتظام کریں۔ نوآبادیاتی نظام کے قیام کے تھوڑے عرصہ بعد ان کے حامیوں کی صف میں مختلف قبیلوں کے سرداروں اور مذہبی لیڈروں کے علاوہ مقامی افسران اور کاروباری طبقہ کے افراد بھی شامل ہو گئے اور اس کی ایک بڑی وجہ اِن کے روزگار کا اُن کے ساتھ وابستہ ہونا تھا۔ برطانوی حکومت اور ان کے درمیان طے پانے والے اس رسمی تعلق نے بعد ازاں اداروں کی شکل اختیار کر لی۔ اسی طرح بقول آئن تالبوٹ:
انتظامی مشینری قائم کرتے وقت مغلوں اور سکھوں کی طرح انگریزوں نے بھی اس اہم حقیقت کو ملحوظ خاطر رکھا کہ زمیندار طبقے کے تعاون کے بغیر انتظامی امور کی انجام دہی بہت مشکل امر ہو گا البتہ اپنے پیش رو اصحابِ اقتدار کے برعکس انگریزوں نے اقتصادی اصلاحات بھی متعارف کروائیں جس کے نتیجہ میں شہری متوسط طبقے نے جنم لیا، جن کے مفادات روایتی مقتدر طبقات سے متضاد تھے۔ یہیں سے دو (ایک دوسرے کی مخالف) سیاسی روایات کا وجود عمل میں آیا جنہیں شہری و دیہی سیاسی روایات کا نام دیا گیا۔ ۶
گو تالبوٹ کا بیان خالص سیاسی پنجاب کے حوالے سے ہے اور اس میں صوبہ میں تشکیل پاتی اور مروّج ہوتی سیاسی صورتحال کا نقشہ کھینچا گیا ہے لیکن اس کی روشنی میں ہم پنجاب کے دو طبقات، شہری طبقہ اور دیہی اشرافیہ کے درمیان موجود اختلاف کو سمجھ سکتے ہیں جس پر پورے پنجاب کا مزاج متعین ہو رہا ہے اور آگے چل کر یہی مخصوص مزاج رسم و رواج، عقائد و نظریات اور ادبی نقطۂ نظر کے تعین اور ترویج کا باعث رہا ہو گا۔ اس سارے منظر نامے میں پنجاب کا دیہی کردار اس کی بدامنی سے عبارت ہنگامہ خیز تاریخی جدل کے نتیجے میں تشکیل پایا ہے۔
جاگیردار کا یہ کردار فکشن میں اپنی مختلف شکلوں میں موجود ہے۔ کہیں یہ ملک ہے، کہیں راجہ، کہیں چودھری، کہیں نمبردار یا ذیلدار، کہیں نواب تو کہیں خان صاحب اورسردار۔ لیکن مجموعی طور پر یہ جاگیردار کی ہی مختلف شکلیں ہیں جو جنوبی، وسطی یا شمالی پنجاب کے جغرافیائی فرق اور زمین کے ملکیتی تصور اور تھوڑے تھوڑے ثقافتی اورلسانی فرق کی وجہ سے وجود میں آئی ہیں۔
اُردو افسانے پر نظر دوڑائیں تو اِس کردار کی پیش کش بالعموم اُن افسانہ نگاروں کے ہاں زیادہ دکھائی دیتی ہے جن کا پنجاب کے دیہی سماج سے بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق رہا ہے۔ یوں اُن کا باریک بین مشاہدہ اور تجربہ اِس کردار کے خد و خال کے تعین میں معاونت کرتا دکھائی دیتا ہے۔ فکشن میں یہ کردار بالعموم جن نمائندہ صفات کا حامل دکھایا گیا ہے وہ درج ذیل ہیں :
۱) نام نہاد عزت اور غیرت کا علمبردار جو طاقت کو ہی حقیقی جوہر تسلیم کرتا ہے۔
۲) اپنی بڑائی اور تسلط قائم رکھنے کے لئے ہر نوع کے حربے کو جائز ہی نہیں اپنا استحقاق تصور کرتا ہے۔
۳) اپنے اور مزارعین یا کسانوں کے درمیان ایک واضح حدِ فاصل رکھنے کا قائل ہے اور برابری کا معیار خاندانی جاہ و حشمت کے اِسی تصور سے مشروط رکھتا ہے جو ملکیتی جاگیر کی توسیع سے تشکیل پاتا ہے۔
۴) ذرائع پیداوار پر اپنا تسلّط مضبوط رکھنا چاہتا ہے۔
۵) طبقاتی تفاوت میں محض خاندان اور نسل ہی نہیں جنسی تفریق کو بھی پیشِ نظر رکھتا ہے اور عورت کو ایک خدمت گزار یا شہوت مٹانے والی چیز کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنے خاندان کو بھی کسی نوع کی آزادی دینے کا قائل نہیں ہے۔
۶) نچلے طبقے کے افراد اُس کے نزدیک قابلِ عزت ہو ہی نہیں سکتے۔
۷) محنت کشوں اور کسانوں کو اپنا تابع فرماں رکھنے کے لئے اُنہیں مختلف قانونی پیچیدگیوں کا شکار رکھتا ہے۔
۸) مقامی پولیس اور کچہری کے معاملات کو بھی مختلف حیلوں سے اپنے قابومیں رکھنا چاہتا ہے۔
۹) رفاء عامہ کے منصوبوں اور شرحِ خواندگی میں اضافے کو اپنی حاکمیت کی کمزوری مانتے ہوئے حتیٰ المقدور کوشش کرتا ہے کہ اُس کے علاقے کے مکینوں تک اِن کی رسائی نہ ہو۔
۱۰) مذہبی عقائد کو من چاہی تعبیر دے کر اپنے حق میں استعمال کروانا چاہتا ہے۔
۱۱) اپنے علاقے کے مکینوں کو ایسا مجبورِ محض دیکھنا چاہتا ہے جو برابری کے کسی بھی تصور کو نہ صرف سماجی بلکہ مذہبی روگردانی تصور کریں۔
۱۲) نمک حلالی کا ایسا تصور رکھتا ہے جو غلامی کو فطری امر سمجھ کر قبول کرنے پر آمادہ رکھے۔
۱۳) سیاسی گٹھ جوڑ سے اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں تک رسائی کے راستے کسی بھی طرح ہموار رکھنا چاہتا ہے۔
یہ وہ بنیادی خد و خال ہیں جو اُردو افسانے میں موجود جاگیردار کے کردار میں بالعموم تلاش کئے جا سکتے ہیں۔ علاقے کی سماجی بہبود یا عام آدمی کی حاجت میں اُس کی حاجت روائی کا تصور بھی خال خال دیکھا جا سکتا ہے(قاسمی صاحب کے افسانے الحمدللہ کا چودھری) مگر مجموعی طور پر اِس کردار کی صفات اوپر بیان کردہ نکات ہی سے تشکیل پاتی ہیں۔ اِن صفات کے تناظر میں دیکھا جائے تو اُردو کے جن افسانہ نگاروں کے ہاں جاگیردار کا یہ کردار تواتر کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اُن میں احمد ندیم قاسمی، شوکت صدیقی، منشا یاد، غلام الثقلین نقوی اور طاہرہ اقبال وغیرہ وغیرہ اہم ہیں۔ احمد ندیم قاسمی کے ہاں جاگیردار کا کردار سب سے زیادہ تواتر کے ساتھ تخلیقی تجربہ بنتا دکھائی دیتا ہے۔