پروفیسر نذر خلیق(خانپور)
طاہر نقوی اردو افسانے میں ایک جانے پہچانے نام ہیں ۔’’دیر کبھی نہیں ہوتی ‘‘ ان کا چوتھا افسانوی مجموعہ ہے اس سے پہلے ’’بند لبوں کی چیخ‘‘1982 ء میں آدم جی ادبی انعام حاصل کر چکا ہے جب کہ 198 9ء ’’حبس کے بعد پہلی بارش ‘‘ اور 1998 ء میں ’’شام کا پرندہ‘‘ قبول ِ عام کا درجہ حاصل کرنے والے افسانوی مجموعے شائع ہوچکے ہیں جب کہ مختلف موضوعات پر مضامین اور ٹی وی ڈراموں کا ایک انتخاب شائع ہونے والا ہے۔طاہر نقوی کا افسانوی مجموعہ ’’دیر کبھی نہیں ہوتی‘‘ادارہ ممتاز مطبوعات ‘‘گلشن اقبال کراچی سے شائع ہوا ہے اس میں تقریبا ً 25 افسانے شامل ہیں۔
یوں تو اس افسانوی مجموعے میں مجموعی حیثیت سے دیکھا جائے تو انسانی کرب اور انسانی جبلتوں کو موضوع بنایا گیا ہے لیکن اس افسانوی مجموعے میں زیادہ تر افسانے ’’عورت‘‘ کی نفسیات اور ’’عورت ‘‘ کی داخلی کمزوریوں اور حقیقتوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے ۔’’عورت‘‘ جب کسی ایک چیز کو اپنے ذہن اور دل میں بٹھا لیتی ہے تو اس سے چھٹکارا پانا یا اسے چھوڑنا اس کے لیے کتنا مشکل ہو جاتا ہے۔یہ بات اس افسانوی مجموعے کے افسانے ’’دیر کبھی نہیں ہوتی‘‘بیان کی گئی ہے۔طاہر نقوی کے اس افسانے میں بتایا گیا ہے کہ عورت اتنی کمزور ہوتی ہے کہ وہ اپنی عادت اور فطرت کے ہاتھوں مجبور ہوتی ہے مثلاً اس افسانے کی ان سطور سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے ۔
’’جب تک میں گھر میں موجود رہتا وہ مطمئن رہتی مگر جیسے ہی کہیں جانے کا ارادہ کرتا وہ بھانپ لیتی اور پریشانی اس کے چہرے سے عیاں ہو جاتی شاید اسے اپنی بے بسی جان کر وہ چُپ رہتی میں خود بھی اس کی اس کیفیت کو محسوس کر لیتا اور نا گواری کا تاثر میرے وجود پر چھا جاتا جو میرے چہرے سے ظاہر ہونے لگتا ۔وہ خوف سے کچھ نہ بولتی تاہم میرے جاتے وقت وہ رہ نہ پاتی اور وہی سوال کر بیٹھتی شاید یہ بات اب اس کی نفسیاتی کمزوری بن کر رہ گئی تھی۔ کہیں بیٹھے بیٹھے مجھے دیر ہو جاتی تو میں سوچتا کہ گھر فون کر کے بیوی کو اطلاع دے دوں مگر اسی سوال کے ذہن میں آتے ہی میں اپنے اس خیال کو ذہن سے کھرچ دیتا البتہ جب میں رات گئے گھر لوٹتا تو وہ مجھ سے کوئی استفسار نہ کرتی بلکہ کھوجنے والی نگاہوں سے تکتی رہتی۔‘‘ ۱
اس افسانوی مجموعے میں شامل افسانہ ’’ستارہ‘‘ عورت اور اونچے طبقے کی جتنی عکاسی کرتا ہے وہ شاید کسی اور افسانے میں نظر آتی ہو ۔ اس افسانے سے کئی نفسیاتی اور جبلی حقیقتوں کو نمایا ں کیا گیا ہے ۔عورت جو چھوٹی چھوٹی خواہشات کے ہاتھوں اسیر ہو کر زندگی کے اہم فیصلے کر بیٹھتی ہے اور اس پر اسے پشیمانی تک نہیں ہوتی اور زندگی کی شاہراہ پرچلتے چلتے اپنے وجود اور باطن کی عظمت تک کو فراموش کر بیٹھتی ہے ۔وہ اس افسانے میں نمایاں ہے۔’’ستارہ‘‘ایک ایسی عورت ہے جو اپنے حسن اور جمال میں بے مثال ہے لیکن اسے اس کا احساس ہوتے ہوئے بھی اپنی اس دولت کو ایک بوڑھے سلطان مرزا کے حوالے اس لیے کر دیتے ہے کہ وہ دولت مند ہے حالانکہ وہ اس دولتِ حسن کو اس کے حوالے کرنا چاہیے تھا جو قدرت نے اسے کا ہم عمر مرد بنایا تھا تاکہ مستقبل میں وہ مسائل پیدانہ ہوتے جو بعد میں پید اہوئے ۔’’ستارہ‘‘ کے ساتھ بھی وہی ہوا جو ہر اس عورت کے ساتھ ہوتا ہے جو اپنی عمر سے دگنی عمر کے مردوں سے کسی لالچ یا مجبوری کی وجہ سے شادی کر لیتی ہیں۔خاوند کی وفات کے بعد وہی بے راہ روی اور و ہی بدن کی پیاس بجھانے کا عمل اس افسانے کا اہم موضوع ہے ۔اس افسانے کی سب سے نمایاں بات اونچے طبقے کی وہ خرابیاں ہیں جو صرف اس لیے پوشیدہ رہتی ہیں کہ اونچا طبقہ اپنی دولت اور اپنے جھوٹے معیار کی وجہ سے اپنی خامیاں ظاہر نہیں ہونے دیتا ۔افسانے کی ان سطور کو دیکھا جا سکتا ہے ۔
’’اس کے حسن کے چرچے دور دور تک پہنچ گئے ۔دولت مند سلطان مرزا بھکاری بن کر اپنی لمبی اور چمکدار گاڑی میں بیٹھ کر اس کے دروازے پر بھیک مانگنے چلا آیا اپنے سے دُگنی عمر معمولی شکل و صورت اور گہنائے ہوئے رنگ کے باوجود سلطان مرزا کے رشتے پر فوراً راضی ہو گئی۔ ایسے مرد کو کم عمر اور خوبصورت لڑکی مل جائے تو اس کے اشاروں پر با خوشی ناچتا ہے ۔’’ستارہ‘‘ کو اپنے حسن کی طاقت کا احساس تھا۔اس نے اپنے شوہر کو شیشے میں اتارتے ہوئے ایک روز کہا کہ جب مجھ جیسی بیوی تمہارے گھر میں موجود ہے تو تمہیں کلب اور پارٹیوں میں جانے کی کیا ضرورت ہے ۔سلطان مرزا میں اس کے خلاف جانے کی ہمت نہ تھی‘‘ ۲
’’ستارہ‘‘کی ان سطور کے بعد مندرجہ ذیل سطور بھی بہت اہم ہیں ۔ ملاحظہ ہوں۔
’’مسز خان نے اپنی بات واضح کرتے ہوئے بتایا کہ یہ محفلیں ہر ہفتے شہر کے مختلف پوش علاقوں میں ہوتی ہیں۔ ایسے لڑکوں کا انتخاب متوسط ،غریب اور ضرورت مند گھرانوں سے کیا جاتا ہے کیونکہ وہ معقول معاوضہ لے کرراز داری کا وعدہ کرتے ہیں۔رات کو بستر پر لیٹے ہوئے بھی وہاں کا منظر’’ ستارہ‘‘کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوا وہ دیر تک بیگمات اور لڑکے کے بارے میں سوچتی رہی اسے وہ سب کچھ بے شرمی اور غیر مہذب لگا اور ساتھ ساتھ پُر لطف بھی ،کبھی سوچتی کہ ایسے ماحول سے کنارہ کشی کرلے اور کبھی سوچتی کہ اپنی ویران زندگی کے چند لمحات یوں تفریح میں گزر جائیں تو کیا حرج ہے ایسی کشمکش میں اکثر دل کی بات مان لی جاتی ہے ۔‘‘ ۴۳ ’’ستارہ‘‘ کے علاوہ ان کے دیگر افسانے ’’محبت کی ایک اور کہانی ‘‘ میں عورت کی ازلی محبت اور بے لوث چاہت کو نمایاں کیا گیا ہے جب کہ ان کا افسانہ ’’ضرورت مند‘‘ میں پھر وہی عورت کی جنسی پیاس کو موضوع بنایا گیا ہے کہ جنس ایک جبلت ہے اور جبلت کو قابو کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا تصور کر لیا جاتا ہے ۔ بھوک مٹانے کے لیے کچھ کھانا پڑتا ہے اور جنس کی تسکین ہی جنسی جبلت کو قابو میں لا سکتی ہے۔’’ضرورت مند ‘‘میں کسی کی جبلت بھوک ہے اور کسی کی جنس ۔’’وہ جو اجنبی تھا ‘‘ میں بھی اسی جنسی جبلت کو نمایاں کیا گیا ہے جب کہ ’’ایک اور پگلی ‘ ‘میں مرد کی جنسی پیاس اور جبلت نمایا ں ہے اور بتایاگیا ہے کہ کس قدر خود غرضی اور لالچ ایک جنس پرست کو اپنے گھیرے میں لے لیتی ہے کہ اپنی جنسی پیاس بجھانے کے لیے ایک خود غرض مرد ، ایک پاگل اور اپنے ہوش سے بے خبر عورت کی عزت بھی تار تار کر دیتا ہے ۔اس افسانوی مجموعے میں یوں تو سارے افسانے سچ لیے ہوئے ہیں اور کوئی بھی افسانہ ساختگی اور تکنیک کی مدد سے مکمل نہیں کیا گیا لیکن اس افسانوی مجموعے کا اہم ترین موضوع اور غالب موضوع عورت ہی ہے ۔اس افسانوی مجموعے میں عورت اپنے وجود کے ہاتھوں مجبور بھی ہے اور اپنے وجود پر نازاں اور خود سر بھی تاہم اس افسانوی مجموعے میں دو افسانے ’’ابھی وقت ہے‘‘ اور ’’پاکستان 2010ء‘‘ موجودہ حالات پر اہم افسانے ہیں ۔ان افسانوں میں معاشرتی خود غرضیاں اور حال اور مستقبل کی کشمکشوں کو موضوع بناتے ہوئے فکری رویے نمایاں ہوئے ہیں ۔سنجیدگی کے ساتھ ساتھ طنزیہ انداز بھی موجود ہے اس سلسلے میں ’’پاکستان 2010ء‘‘ کی ان سطور کو دیکھا جا سکتا ہے۔
’’اندھیرا ہمیشہ عجیب و غریب وسیلہ ہوتا ہے کسی کو پناہ دیتا ہے کسی کو ورغلاتا ہے اور کسی کو مجبور کر دیتاہے اس نے اپنی آنکھوں سے گرتے ہوئے آنسو صاف کیے اور سہمے ہوئے لہجے میں گویا خود سے کہا ’’ان کے ہتھے چڑھ جاتی تو نجانے وہ میرا کیا حشر کرتے ‘‘معاشی بد حالی مختلف برائیوں کو جنم دے رہی تھی ۔ معاشرہ دو مخالف انتہاؤں میں بٹا ہوا تھا اور درمیان میں وسیع خلیج حائل تھی۔ زرمینہ میرے کمرے میں ادھر ادھر نظر دوڑاتی رہی مگر اس نے میری بے سروسامانی پر کوئی حیرت ظاہرنہیں کی۔کیونکہ سب ایک دوسرے کے حالات سے واقف تھے۔‘‘ ۴
طاہر نقوی نے بیانیہ انداز اختیار کیا ہے۔ اپنے افسانوں کو علامت کے بوجھل پن سے دور کھتے ہیں ۔تجریدیت کی بے مقصد گہرائیوں سے بھی بچتے ہیں ۔بے ساختگی اور فطری انداز ان کے افسانوں میں اجنبیت سے بچاتے ہیں۔ان کے افسانے ذا ت اور داخلی حقیقتوں کو لیے ہوئے ہیں ۔ہمیشہ ان سماجی اور معاشرتی موضوعات کو افسانوں میں لے آتے ہیں جو کرب ناک اور چونکا دینے والے ہوتے ہیں۔تاہم ان کے موضوعات معاشرے میں نظر بھی آتے ہیں اور انسان کی ذات کے اندر پوشیدہ بھی رہتے ہیں۔مختصراًہم کہہ سکتے ہیں کہ طاہر نقوی ایک کامیاب اور اسلوب و موضوعات کے حوالے سے ہمیشہ زندہ رہنے والے افسانہ نگار ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
1۔ دیر کبھی نہیں ہوتی از طاہر نقوی ، ادارہ ممتاز مطبوعات گلشن اقبال کراچی ص:۸
۲۔ دیر کبھی نہیں ہوتی از طاہر نقوی ، ادارہ ممتاز مطبوعات گلشن اقبال کراچی ص:۱۵
۳ دیر کبھی نہیں ہوتی از طاہر نقوی ، ادارہ ممتاز مطبوعات گلشن اقبال کراچی ص:۱۸
۴۔ دیر کبھی نہیں ہوتی از طاہر نقوی ، ادارہ ممتاز مطبوعات گلشن اقبال کراچی ص:۱۷۰