میلہ تعارف:حیدر قریشی
اقبال اور ترک(تحقیق و تالیف) محقق و مولف:ڈاکٹر خلیل طوق أر
صفحات 155: قیمت: 120 روپے ناشر:بزم اقبال۔نرسنگداس گارڈنز،2 ۔کلب روڈ۔لاہور
ڈاکٹر خلیل طوق أر ترکی میں اردو کا چراغ روشن کئے ہوئے ہیں۔’’اقبال اور ترک‘‘ اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک منفرد کتاب ہے۔پہلے حصہ میں علامہ اقبال کی نظر میں ترک قوم کا ذکر ہے۔سلطنتِ عثمانیہ کے زوال اور خاتمہ کا دکھ اور عربوں کی بے حسی بلکہ بے وفائی کو اقبال نے شدت کے ساتھ محسوس کیا تھا۔اس باب میں اقبال کی شاعری کے حوالے دیتے ہوئے ماضی کی تاریخ کے کئی اہم گوشے سامنے لائے گئے ہیں۔حصہ دوم میں ترکوں کی نگاہ میں علامہ اقبال کا مقام و مرتبہ بیان کیا گیا ہے۔اس حصہ میں ایسے ترک دانشور بھی ہیں جو انقلابی ذہن رکھتے تھے اور مذہبی انتہا پسندی سے متنفر تھے،انہوں نے اقبال کو اپنے زاویے سے دیکھا اور پسند کیا ہے۔جبکہ ایسے مذہبی لوگ بھی ہیں جنہوں نے فکر و فلسفہ کی کسی جہت کی بجائے صرف مذہبی عقیدت کے ساتھ اقبال کو چاہا ہے اور اس لگن میں انہیں جنت کی بشارت بھی عطا کر دی ہے۔بہر حال یہ کتاب اقبال اور ترکوں کے حوالے سے بڑی عمدہ معلومات کی حامل کتاب ہے۔اسے خلیل طوق أر نے صرف مرتب نہیں کیا بلکہ بڑی عرق ریزی کے ساتھ تحقیق بھی کی ہے۔آخر میں علامہ اقبال پر ترکی کی یونیورسٹیوں میں ہونے والے تحقیقی کام کی ایک طویل فہرست دی گئی ہے جو بلاشبہ قابلِ رشک ہے۔
خوش کن ہے پت جھڑ(ہائیکو) ہائیکو نگار: سہیل احمد صدیقی
صفحات:128 قیمت:100 روپے ناشر:کینوپس۔آر ۳۹۳۔سٹی ولاز،اسکیم 33،یونیورسٹی روڈ،کراچی
سہیل احمد صدیقی اردو ماہیے کے فروغ میں سنجیدہ اور بامعنی کام کر رہے ہیں۔’’خوش کن ہے پت جھڑ‘‘
ان کے ہائیکو کا مجموعہ ہے۔اس میں مقفیٰ ہائیکو اور غیر مقفیٰ ہائیکو کو الگ الگ حصوں میں پیش کیا گیا ہے۔غیر مقفیٰ ہائیکو جاپانی مزاج سے زیادہ قریب لگتے ہیں۔دونوں حصوں سے دو دو ہائیکو نمونہ کے طور پیش ہیں۔
اشکوں کا سیلاب بے کل لگتی ہے ہر چہرہ شاداب منظر پر اسرار
مجھ کو سنگ لے جائے گا دروازے کے پیچھے سے ہر موسم سے بڑھ کر ہے جنگل کے سناٹے میں
یادوں کا گرداب مجھ کو تکتی ہے چیری کا موسم مینڈک کی آواز
غالب تنقید(ایم فل کا مقالہ) مصنف و محقق:جاوید رحمانی
صفحات:168 قیمت: 110 روپے ناشر:انجمن ترقی اردو(ہند) نئی دہلی
غالبؔ اردوکے ایسے شاعر ہیں جو اپنی زندگی میں ناقدری کا شکار رہے لیکن جن کی وفات کے بعد ان کے فن پر اتنی توجہ دی گئی کہ اردو تنقید و تحقیق میں غالبیات کا ایک شعبہ سا بن گیا۔جاوید رحمانی کی زیرِ نظر کتاب اسی غالبیات سلسلے کی ایک کڑی ہے۔غالب کی زندگی اور فن پر اب تک جو کچھ لکھا جا چکا ہے،جاوید رحمانی نے اس میں سے بیشتر اہم تحریروں کو اپنے مقالہ میں سمیٹ لیا ہے۔ ایم فل کے تحقیقی تقاضوں کو پیشِ نظر رکھ کر جاوید رحمانی نے کافی محنت کی ہے اور دوسروں کے تاثرات یا فیصلوں پر اپنی رائے بھی دی ہے۔اس رائے سے اختلاف کے کئی پہلو بھی نکلتے ہیں۔ جاوید رحمانی نے کئی جگہ شعوری طور پر غالب کے مخالف اور موافق آراء پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے ایک خاص قسم کا توازن قائم کرنے کی کوشش کی ہے ۔اس کے باوجود ایسے لگتا ہے جیسے جاوید رحمانی غالبؔ کی عظمت کے قائل نقادوں سے کچھ زیادہ شاکی ہیں،خاص طور پر ان نقادوں سے جن کے بنیادی کام نے غالبؔ کی عظمت کی تفہیم میں بنیادی کردار ادا کیا۔اگر مقالہ کے آخر میں ایک محاکمہ شامل کر لیا جاتا تو ان کی رائے کا مجموعی تاثر زیادہ بہتر طور پر سامنے آجاتا۔ غالبیات کے حوالے سے جو کچھ اب تک لکھا گیا ہے،اس سارے کو سرسری نظر سے دیکھنا ہو تو صرف اسی کتاب کا مطالعہ کافی رہے گا۔اسی کتاب سے یہ بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ غالبؔ کو کس زاویے سے مزید سمجھنا ہو تو کونسی پہلی کتابیں زیادہ بہتر رہیں گی۔جاوید رحمانی کو اس محنت پر داد دی جانی چاہئے۔
اردو مرثیے کا سفر مصنف و مولف:عاشور کاظمی
صفحات:1224 قیمت: 200 روپے ناشر:عاشور کاظمی فاؤنڈیشن،برمنگھم،انگلینڈ
ایک ہزار دو سو چوبیس صفحات کی بھاری بھر کم کتاب دیکھ کر ویسے ہی بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑ دینے والی حالت ہوجاتی ہے اور جب کتاب اتنی خوبصور ت چھپی ہو کہ کسی چھاپہ خانے کی بجائے بیوٹی پارلر سے چھپی ہوئی دکھائی دے تو اسے چوم کر چھوڑنے کو بھی جی نہیں چاہتا۔عاشور کاظمی اس نوعیت کی کتابیں مرتب کرنے کا کافی تجربہ رکھتے ہیں۔ان کی پہلی مرتب کردہ کتابوں کا تجربہ ان کے کام آیا ہے اور اسی کے نتیجہ میں وہ ایسی ضخیم کتاب کو مرتب کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔انہوں نے ممکنہ حد تک اپنے موضوع سے انصاف کیا ہے۔سولہویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک کے اردو مرثیہ نگاروں کا تذکرہ ترتیب دینا آسان کام نہیں تھا۔ان سے پہلے جن لوگوں نے بھی اس نوعیت کا کوئی کام کیا ہے،یہ کام بلاشبہ ان سب پر حاوی ہو گیا ہے۔ اسے اس موضوع پر مستقل دستاویز کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔عاشور کاظمی ایسا محنت طلب کام اتنی محنت و مشقت اور اتنی خوبصورتی کے ساتھ مکمل کرنے پر داد اورمبارکباد دونوں کے مستحق ہیں۔
کرچیاں:(شاعری مصوری) شاعرہ،مصورہ: پروین شیر
صفحات:(کافی ٹیبل سائز)27 6 قیمت:60 ڈالر یا یورو۔ ناشر:بزمِ تخلیق ادب۔کراچی
پروین شیر کے فن کی کئی جہات ہیں۔ان میں نمایاں موسیقی،مصوری اور شاعری ہیں۔موسیقی میں ان کی خاص دلچسپی ستار جیسے قدیم سازمیں ہے،مصوری میں انہوں نے تصویر اور منظر کشی کو تجریدیت کے ساتھ ایسے ہم آہنگ کیا ہے کہ تجرید سے اکتاہٹ پیدا نہیں ہوتی بلکہ ناظرین اس کے مفہوم کی پرتیں الٹنے لگتے ہیں۔شاعری میں انہوں نے غزلیں بھی کہیں ہیں تاہم آزاد نظم کو زیادہ مرغوب رکھا ہے ۔ اس میں انہوں نے نظم کا ابلاغ کہیں بھی الجھاؤ کا شکار نہیں ہونے دیا۔بہت زیادہ دانشوری بگھارنے کی کوشش بھی نہیں کی۔اپنے سیدھے اور سچے جذبات اور خیالات کو سادگی کے حسن کے ساتھ پیش کر دیا ہے۔’’کرچیاں‘‘ میں ان کی شاعری کے ساتھ ان کی مصوری کے فن پارے بھی شامل ہیں۔شاعری اور پینٹنگز کے ساتھ ان کا انگریزی ترجمہ بھی دیا گیا ہے۔یہ تراجم کرنے والوں نے ترجمہ کا حق ادا کردیا ہے۔یوں یہ ایک نادر اور منفرد مجموعہ بن گیا ہے۔پروین شیر کی شاعری کا مفہوم ان کی پینٹنگز اور تصاویر میں اپنے معانی کی توسیع کرتا ہے۔یہ ان کا کمال ہے۔ کافی ٹیبل سائز کی کتاب کے لحاظ سے بھی شاید اردو میں یہ پہلا مجموعہ چھپا ہے۔شاعری کے ہر فن پارے کے ساتھ اس کا انگریزی ترجمہ اور پروین شیر کی اس سے متعلق مصوری،نے اس کتاب کو سہ آتشہ بنا دیا ہے،یوں اسے متنوع مزاج قارئین کا حلقہ دستیاب ہو سکتا ہے۔
عکاس،اسلام آباد(ادبی کتابی سلسلہ :۵) مدیران:ارشد خالد، محمد افضل
صفحات:80 قیمت:30 روپے
ملنے کا پتہ:1164 ،گلی نمبر2 ،بلاک سی،نیشنل پولیس فاؤنڈیشن ۔سیکٹرO-9 ۔لوہی بھیر، اسلام آباد
ارشد خالد خانپور کے زمانہ سے اپنا ادبی کتابی سلسلہ گاہے بگاہے نکال رہے ہیں۔اسلام آباد آنے کے بعد بھی انہوں نے یہ سلسلہ جاری رکھا ہے۔ادبی کتابی سلسلہ کی یہ پانچویں کتاب ہے۔اس کا سرورق حضرت امام حسینؑ کے روضہ مبارک کی تصویر سے سجا ہوا ہے۔’’ایک گوشہ محرم الحرام کے حوالے‘‘سے دیا گیا ہے۔نہ صرف یہ کہ اس میں کوئی فرقہ وارانہ تعصب نہیں ہے بلکہ اس میں بہت سارے شعراء کے کلام سے اندازہ ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر شیعہ سنی کے درمیان کوئی فساد نہیں ہے۔سنی کے نام کی آڑ لینے والے اصل فسادی کوئی اور ہیں۔اہلِ تشیع کے ساتھ سنی شعراء نے بھی اہلِ بیت کی محبت میں ڈوب کرعقیدت کا اظہار کیا ہے ۔غیر مطبوعہ کلام کے ساتھ بہت سارا مطبوعہ مگر یادگار اور مستقل حوالے کا کلام بھی شامل کیا گیا ہے۔حمید سہروردی اور ارشد خالد کے افسانے کربلائی حوالوں کے ساتھ ہیں۔کربلائی موضوع سے ہٹ کردیگر لکھنے والوں میں ڈاکٹر شہناز نبی،کامران کاظمی اور حیدر قریشی شامل ہیں۔ ارشد خالد نے اداریہ کا اختتام ان الفاظ میں کیا ہے:’’ادب میں ضخیم رسائل کا ’مصر کا بازار‘سجا ہوا ہے اور میں اس بازار میں ’سوت کی اٹی‘جیسا اپنا عکاس لئے پھر رہا ہوں۔گر قبول افتد زہے عزو شرف!‘‘