صندل کی تو خوشبو
جنگل،بادل میں
ہر جانب تو ہی تُو
رونے کی خواہش ہے
کیسٹ غزلوں کی
میری فرمائش ہے
مجھ کو ہوا اندازہ
درد محبت کا
رہتا ہے ترو تازہ
میں خود سے ہارا ہوں
روشن راتوں میں
اک مدھم تارا ہوں
دل سے اقرار کیا
دنیا سے چھپ کر
ساجن سے پیار کیا
گزرا ہوا قصہ ہے
میرے جیون کا
وہ آدھا حصہ ہے
موجوں سے نہ ڈر ماہیا
اچھا لگتا ہے
موجوں کا سفر ماہیا
کیا لینا زمانے سے
دل یہ بہلتا ہے
ساجن ترے آنے سے
اچھا یا بُرا کیا ہے
اپنے اندر ہی
میں نے سب پایا ہے
یاری تری جھوٹی ہے
دونوں ہیں یکساں
نیت مِری کھوٹی ہے
تالاب کے پانی سے
درد مہکتے ہیں
پھولوں کی جوانی سے
بلبل کی صدا کاری
پھول مہکنے تک
کرتی رہی دلداری
پابندی ہے اب ماہیا
آؤگے اُس دن
مر جاؤں گا جب ماہیا
نمکین ہے کیوں پانی
پسنیؔ میں رہ کر
یہ بات نہیں جانی
دل تھام کے چلتے ہیں
لوگ محبت میں
کیا رنگ بدلتے ہیں
وہ دھوپ کا حصہ تھا
سورج کا سایا
دن آنکھ میں بیٹھا تھا
باہر سے کالا ہوں
لیکن اندر سے
پھولوں کی مالا ہوں
تانگے کی سواری ہے
غم ہی غم پائے
کیسی تری یاری ہے