ہو جاتا ہے دھوکا بھی
کرنا ہی پڑتا ہے
انساں کو بھروسا بھی
ہستی کو مٹانے پر
روشنی پائی ہے
گھر اپنا جلانے پر
بھوگا ہے جو سُکھ میں نے
سُکھ سے ہی پایا ہے
جیون میں یہ دُکھ میں نے
کچھ ہے تجھے اندازہ
تو نے مِرے دل کا
ہر زخم کیا تازہ
قسمت کے اشارے پر
ڈوب گئی کشتی
پاس آکے کنارے پر
ہو جاتے ذرا ہلکے
غم میں ترے لیکن
آنسو ہی نہیں چھلکے