باغوں میں تماشے ہیں
خار تو یکساں ہیں
گل کس نے تراشے ہیں
کیا غور سے دیکھا ہے
بھوک اور غصے میں
باریک سی ریکھا ہے
شکوے نہیں غیروں کے
جو بھی ظلم ہوئے
تھے سارے وہ اپنوں کے
انصاف تو اندھا ہے
بھوک اور بھیک یہاں
بس روز کا دھندہ ہے
یہ رشتہ قریبی ہے
بھوکے کی پونجی
بس ایک غریبی ہے
ان وعدوں پہ مت جانا
پنجے ہیں اندر سے
باہر سے ہے دستانا