خاور اعجاز(ملتان)
لیتا نہیں مَیں نام بھی اُس ناسپاس کا
جس کو فرات کہتے ہو صحرا ہے پیاس کا
اِک سر ہے سربلند جہاں پر سرِ سناں
پرچم ہے سر نگوں وہاں خوف و ہراس کا
شامِ ملال و حزن کی مجبوریوں میں بھی
اُسؓ نے دیا جلایا نہیں التماس کا
اُسؓ کا غنیم کھینچ رہا تھا لہو لکیر
وہؓ پھول رکھ رہا تھا جہاں پر کپاس کا
آنے لگی ہے شامِ غریباں قریب تر
منظر اداس ہونے لگا آس پاس کا
دشمن نہیں ہے ہوش میں ، صرف اِس دلیل پر
کیوں چھوڑ دے حسینؓ بھی دامن حواس کا