کہنے کو وہ دریا ہے
کوئی نہیں جانے
اک عمر کا پیاسا ہے
خود جاگتے پہلے تھے
لوگ تھے کیسے جو
سورج کو جگاتے تھے
پھر صبح سے کچھ ایسے
آنکھ پھڑکتی ہے
شاید کوئی آجائے
مشکل ہے دوانے کو
دشت نہ صحرا ہے
اب خاک اُڑانے کو
یہ نسل ہے پتھر کی
چوٹ نہیں لگتی
اب دل پہ کسی کے بھی
چہروں پہ سجاوٹ تھی
لوگ ملے جتنے
لہجوں میں بناوٹ تھی