احمد ہمیش
زندگی دروازہ پر کھڑی ہونے والی امید
مگر کس کی راہ دیکھ رہی ہے!
اس ابھاگن زندگی میں
جسے آنا تھا یا جو آسکتا تھا
وہ آیا بھی یا نہیں! یہ معلوم نہیں
معلوم ہوا کہ ہوا میں پھیلتے دھوئیں نے
میرے خلاف ایک تحریر لکھی ہے کہ ہمیش کو مٹا دو
معلوم ہوا کہ محبت سے بنا ہوا کچھ بھی تو مجھے راس نہیں آیا
اور نفرت نے میرے خلاف آگ جلانے کے سوا کچھ بھی نہیں کیا
گویا اتنی زندگی گزر گئی
مگر نیند اور بے داری کے درمیان
اندھیرے سے رونے کا ڈھنگ سیکھا جاسکتا تھا
سمندر چاہتا تو پانیوں پر چلنے کا ڈھنگ سکھا سکتاتھا
اور پاگلوں سے ہنسنے کا ڈھنگ سیکھا جاسکتا تھا
تو اب کیاکیِا جاسکتا ہے!
ٹھہرو ہمیش
رات اگر دن کے خلاف بو ل رہی ہو تو اسے بولنے دو
شائد اس طرح زمین بھر کا غلط موسم بدل جائے