ناظم خلیلی(رائچور)
ہم بکھرنے سے پہلے بکھر جائیں گے
انتظارِ اجل ہی میں مرجائیں گے
صبح تک سر پہ یادوں کی شمعیں لیے
قافلے آہٹوں کے گزر جائیں گے
رہروانِ رہِ عاشقی ایک دن
ٹھوکریں کھا کے خود ہی سدھر جائیں گے
دیکھ کر ہم کو جو پھول سا کھل اُٹھے
کوئی ایسا نہیں پھر بھی گھر جائیں گے
صبح تک چشمِ نم خشک ہوجائے گی
صبح تک روح کے زخم بھر جائیں گے
جا کے مغرور پیڑوں سے کہدے کوئی
ایک دن اُن کے کپڑے اتر جائیں گے
زندگی چار روزہ سہی پھر بھی ہم
چار ہی دن میں کچھ کام کرجائیں گے