سہیل احمد صدیقی(کراچی)
زندگی کیا ہے‘ رات گزری ہے
گیسوؤں میں حیات گزری ہے
کیا بھلا فائدہ ہو شبنم سے
جب خزاں پات پات گزری ہے
محوِ حیرت ہو ں چشمِ جاناں سے
جگنوؤں کی برات گزری ہے
ہم سے ملتار ہا ہے مہرِ دونیم
کس قیامت کی رات گزری ہے
آتش گل بجھائے گا کیسے
اُ س کے سر سے یہ بات گزری ہے
فصلِ گل جب کبھی ادھر آئی
ہم سے بے التفات گزری ہے
تذکرہ پھر سہیلؔ مضطر کا
رات گزری ہے ‘ بات گزری ہے