عظیم انصاری(مغربی بنگال)
چرکے جو بار بار یوں کھاتا رہے گا دل
کب تک وفا کی رسم نبھاتا رہے گا دل
دیوار و در سے سبزہ اگاتا رہے گا دل
شاداب اپنے غم کو بناتا رہے گا دل
باتوں سے اپنی آگ لگاتا رہے گا دل
ہر ہر قدم پہ اس کو بجھاتا رہے گا دل
شاید اسی کے عزم سے ڈر جائے یہ ہوا
آندھی میں بھی چراغ جلاتا رہے گا دل
نفرت کے بیج لاکھ وہ بوتا رہے مگر
اس سر زمیں سے پیار اگاتا رہے گا دل
جب جب نئے خیال سے ٹکرائے گا دماغ
شعروں کو بے نظیر بناتا رہے گا دل
جاگے گا یہ سماج بھی اک صبحِ نو کے ساتھ
امید کی جو جوت جلاتا رہے گا دل
جب تم نہیں رہوگے تو جینے کا لطف کیا
اوروں کے ساتھ کیسے نبھاتا رہے گا دل
دل کا معاملہ ہے اسے دل پہ چھوڑیئے
آئے گا جب دماغ تو جاتا رہے گا دل
کچھ تو اسے قرار ملے زیست سے عظیمؔ
کب تک غموں کا بوجھ اٹھاتا رہے گا دل