معید رشیدی(مغربی بنگال)
دردِ دل کی کسک، دردِ جاں کی کسک
میرے دل میں ہے سارے جہاں کی کسک
سوئے منزل میں تنہا ہی چلتا رہا
اپنے دل میں لئے کارواں کی کسک
میرے پیروں تلے اب زمیں بھی نہیں
ہے ابھی تک مگر آسماں کی کسک
دور اپنے چمن سے میں کب تک رہوں
ہے قیامت مجھے آشیاں کی کسک
ہر قدم پر لٹا کر بہاریں ہزار
میں لئے پھر رہا ہوں خزاں کی کسک
کوئی تلوار، خنجر، نہ نیزہ، نہ تیر
ہے کہاں کی خلش، یہ کہاں کی کسک
دوریاں بے کراں، پیر میں آبلے
اور رستے میں سنگِ گراں کی کسک