قاضی اعجاز محور(گوجرانوالہ)
انسان نما لوگ یہ آئے ہیں کہاں سے
یہ شہر تو کہتا ہے نکل جاؤ یہاں سے
جنگل ہے کہ بستی یہ درندے ہیں کہ انساں
اب لوگ یہاں بسنے کو لاؤ گے کہاں سے
ڈرتا ہوں نہ بن جائے مری موت کا باعث
جو لفظ ادا ہو نہ سکا میری زباں سے
رک رک کے دھڑکنے کا عجب شوق ہے دل کو
سمجھائے اسے کون کہ یوں کھیل نہ جاں سے
بے وجہ اٹھا دیتا ہے طوفان رگوں میں
یہ خون میں جاگ اٹھتی ہے گرمی سی کہاں سے
بیٹھا ہے عدو گھات لگائے مرے اندر
میں اس سے لڑوں کیسے اسے روکوں کہاں سے
تکتا ہے فرات آج بھی اک جنگ کا منظر
یہ تیر یہ لاشے چلے آتے ہیں کہاں سے
ماتم سے یزیدوں کو ہرانا نہیں ممکن
اس طرح حسینؓ اور کئی جائیں گے جاں سے
محورؔ تری باتوں کی معافی نہیں کوئی
چپ کر جا ،نہ کچھ اور نکل جائے زباں سے