ڈاکٹرشہناز نبی
ہوائیں تند ہیں پھر بھی چراغ جلتے ہیں
ستم شعار انہی حادثوں سے ڈرتے ہیں
چلو کہ کوچ کریں ہم بھی اپنی منزل کو
پڑاؤ دیر تلک ہو تو پاؤں دھنستے ہیں
اتار آئے سبھی قرضِ جاں خجالت میں
نہ کوئی یاد، نہ آنسو، نہ رشتہ رکھتے ہیں
سلگتے شہروں سے اتنا دھواں اٹھا اب کے
پرندے دور بیابانوں میں بھٹکتے ہیں
مزاحمت ہے کہیں سے نہ احتجاج کوئی
کہ خامشی میں بھی کچھ انقلاب پلتے ہیں
جہاں کو زیر و زبر کرکے وہ یہ بھول گیا
کہ ہم میں ایسے بھی کچھ ہیں جو پیش رکھتے ہیں
چراغاں کوئی کہاں تک کرے سرِ مژگاں
دلوں میں کتنے ہی ارمان روز مرتے ہیں