تاجدار عادل(کراچی)
نفرت کے ساتھ عشق بھی ہوتا رہا سدا
دنیا بڑی سی قبر تھی زندہ رہا سدا
ایمانداری عشق میں ہے شرطِ اولیں
لیکن اسی اصول میں گھا ٹا رہا سدا
میں جانتا تھا اب نہ ملے گا وہ پھر کبھی
لیکن میں اس کو ڈھونڈتا پھرتا رہا سدا
اُس کو تو میرے درد کی کوئی خبر نہ تھی
جس سے میں عرضِ حال بھی کرتا رہا سدا
کیا با کمال تھا کہ وہ حد سے گزر گیا
لیکن میں اک مقام پہ ٹہرا رہا سدا
دل نے بھی سو گمان کئے اس کے عشق میں
ہم کو بھی اپنے آپ پہ دھوکا رہا سدا
اس نے کچھ اس طرح سے مجھے مات دی کہ میں
خو د کو ہی فتح مند سمجھتا رہا سدا
بیٹھا رہا ہجوم میں عادل تمام عمر
لیکن کسے خبر کہ وہ تنہا رہا سدا