اکبر حمیدی(اسلام آباد)
دوستو اب نیا زمانہ ہے
آپ کا آئینہ پرانا ہے
آدمی سے جو آدمی تک ہو
ہم کو وہ راستہ بنانا ہے
کہکشائیں تو سج رہی ہیں بہت
اب تری مانگ کو سجانا ہے
دکھ کی راتیں اجالتا ہے جو
میرا دل وہ چراغ خانہ ہے
یونہی بہلا رہا ہوں دل ورنہ
کِسی کو آنا ہے کس کو جانا ہے
ایسا رشتہ ہے دنیا و دل میں
جسے تان ہے اور بانا ہے
جتنا ڈھونڈو گے اتنا پاؤ گے
میرے لفظوں میں وہ خزانہ ہے
میں نے پوچھا ’’ارادہ ہے کہ نہیں‘‘؟
مسکرا کر کہا ’’کہانا ہے !!