صبا اکبر آبادی
جب زباں مچلی دہن کو سی لیا
آگ اگر بھڑکی تو غصہ پی لیا
عشق پیغامِ اجل سے کم نہ تھا
مجھ سے جیسے بن پڑامیں جی لیا
جیتے جی اک شغلِ پیہم تھا یہی
مرتے مرتے نام تیرا ہی لیا
کسقدر پھولوں کو آئی ہے ہنسی
جب ذرا ہم نے گریباں سی لیا
گریہ ء غم آنکھ تک آیا نہیں
اے صباؔ یہ زہر ہم نے پی لیا