صبا اکبرآبادی
نہ آؤں صبحِ محشر تک میں اپنے ہوش میں ساقی
اگر اک رات کٹ جائے ترے آغوش میں ساقی
ابھی در ماندگی کا ہے گماں قدموں کی لغزش پر
ابھی دنیا کو شک ہے کچھ ہمارے ہوش میں ساقی
ذرا سی لغزشِ مستانہ سے سب مل گیا مجھ کو
مرے قبضے میں پیمانہ مرے آغوش میں ساقی
خدا معلوم کیسے چل رہا ہے نظمِ میخانہ
نہ اپنے ہوش میں میکش نہ اپنے ہوش میں ساقی
گیا ہے جب سے یہ مستانہ اُٹھ کر تیری محفل سے
کسی نے پھر نہیں دیکھا صباؔ کو ہوش میں ساقی