ناصر عباس نیّر(لاہور)
ماڈرن ازم اقبال کی معاصر ادبی تحریک تھی۔ اس کا زمانہ ۱۹۱۰ء تا ۱۹۳۰ء قرار دیا جاتا ہے۔ مگر اس کے براہ راست اثرات اقبال کی شاعری پر نظر نہیں آتے۔ کیا اقبال اس تحریک سے آگاہ نہیں تھے یا ان کی انتخابی نظر اس تحریک کو اپنے شعری مقاصد سے ہم آہنگ محسوس کرتی تھی؟ غالباً دوسری بات درست ہے اقبال مغربیت ادبیات سے پورے طور پر آگاہ تھے۔ انھوں نے ’’بانگِ درا‘‘ میں درجن بھر امریکی اور برطانوی شعرا جیسے لانگ فیلو، ایمرسن، ولیم کوپر، ٹینی سن، براؤننگ، سیموئیل راجرز اور دوسروں کی نظموں سے اخذ و ترجمہ کیا ہے۔ ورڈز ورتھ کا انھوں نے گہری نظر سے مطالعہ کیا تھا اور ۱۹۱۰ء میں اپنی انگریزی بیاض میں لکھا تھا کہ ورڈز ورتھ نے انھیں الحاد سے بچایا۔ اسی طرح ملٹن کا بھی ذوق و شوق سے مطالعہ کیا۔ اپنے ایک مکتوب محررہ مارچ ۱۹۱۱ء میں یہ بات درج کی کہ ’’ملٹن کی تقلید میں کچھ لکھنے کا ارادہ جدت سے ہے اور اب وہ وقت قریب معلوم ہوتا ہے کیونکہ ان دنوں وقت کا کوئی لحظہ خالی نہیں جاتا جس میں اس کی فکر نہ ہو۔‘‘ شیکسپیئر کو انھوں نے منظوم خراج تحسین پیش کیا ہے۔ گوئٹے سے بھی اقبال پر مغربی جدیدیت کے اثرات تھے؟ جواب نفی میں ہوگا۔ اس لیے کہ ان تمام شعرا کو ماڈرن کہہ سکتے ہیں کہ ان سب کا تعلق (زیادہ کا تعلق انیسویں صدی سے ہے) ماڈرنیٹی (ہمہ گیر جدیدیت) کے عہد سے ہے…… مگر ماڈرن اسٹ نہیں کہہ سکتے۔ ماڈرن اور ماڈرن اسٹ میں اتنا ہی فرق ہے جتنا ٹینی سن اور ایلیٹ میں یا تھیکرے اور جیمز جوائس میں ہے۔ دراصل اقبال نے مغربی ادبیات سے اخذ و استفادے کا عمل اپنے ابتدائی دور میں شروع کیا اور ۱۹۱۰ء تک ان کا شعری مائنڈ سیٹ، متشکل ہو چکا تھا۔ اپنے ابتدائی دور میں اقبال کا مغربی ادبیات سے تعلق تقلیدی ہے، انھوں نے کئی مغربی نظموں کو پورے کا پورا اور کہیں مغربی نظموں کے کچھ مصرعوں کو ترجمہ کیا ہے جیسے ’’کوپر‘‘ کے اس مصرعے And, while the wings of fancy still are free
کو نظم ’’مرزا غالب‘‘ کا یہ مصرع بنا دیا ہے :
ہے پرِ مرغ تخیل کی رسائی تا کجا
مگر ۱۹۱۰ء کے بعد ان کی نظر انتخابی ہو جاتی ہے اور وہ اپنے شعری مائنڈ سیٹ کی راہنمائی میں معاصر مغربی ادبیات اور تحریکوں سے راست شاعرانہ ربط ضبط نہیں رکھتے۔ یوں بھی جن دنوں ماڈرن ازم کی تحریک زور شور سے جاری تھی، اقبال مغربی تہذیب پر تنقید کا آغاز کر چکے تھے اور ماڈرن ازم مغربی تہذیب ہی کا مظہر ہے۔ چنانچہ جن دنوں مغرب میں ’’ویسٹ لینڈ‘‘ اور ’’یولی سس‘‘ چھپتے ہیں انھی دنوں اقبال اردو میں نظم ’’طلوع اسلام‘‘ (۱۹۲۲ء) اور فارسی میں پیام مشرق (۱۹۲۳ء) تخلیق کرتے ہیں۔ ان کا فرق ظاہر ہے۔ اقبال، ایلیٹ اور جوائس کے نہ صرف موضوعات، ہیئتیں اور اسالیب مختلف تھے بلکہ جمالیاتی مقاصد بھی مختلف تھے۔
یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ ایک ہی عصر میں ادبی سطح پر انسانی سروکار مختلف ہو سکتے ہیں؟ یہ سوال اس وقت زیادہ اہم، متعلق اور بامعنی ہو جاتا ہے جب ہم ادب کے آفاقی ہونے کو ایک کلیے کے طور پر لیتے ہیں، اصل یہ ہے کہ ہر ادبی تحریر، ادبی تحریک، ادبی نظریہ اور جمالیاتی نظام اور شعریات کسی نہ کسی تناظر اور صورت حال کی پابند ہوتی ہے۔ اس لیے کوئی تجربہ، تحریک، نظریہ یا شعریات آفاقی نہیں، وہ اپنی متعلقہ صورت حال اور تناظر میں ’’آفاقی‘‘ ہے۔ جہاں جہاں اور جب جب وہ صورت حال موجود ہوتی ہے اس کے تحت لکھا جانے والا ادب متعلق اور اسی مفہوم میں آفاقی ہوتا ہے۔ بنابریں بیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے مغربی ادب پارے اور اقبال کی شاعری اپنی اپنی صورتِ حال اور تناظر کے پابند ہیں۔ ادب جب صورتِ حال اور تناظر سے الگ ہوتا ہے تو وہ ایلی نیشن (Alienation) کا شکار ہوتا ہے۔
ہر چند اقبال نے ماڈرن ازم سے راست ربط ضبط نہیں رکھا مگر ماڈرن ازم کے بعض تصورات اور اقبال کی شاعری کے بعض موضوعات میں تقابل و تماثل دلچسپی سے خالی نہیں۔ ماڈرن ازم کی تجربہ پسندی، روایت شکنی، تاریخی و جمالیاتی عدم تسلسل اقبال کے یہاں اپنے مغربی سیاق کے ساتھ موجود نہیں۔ انھوں نے نئی ہئیتوں کی تلاش کے بجائے روایتی ہئیتوں کو ہی اپنے لیے موزوں سمجھا ہے۔ اس طرح روایت سے اپنا تعلق قائم رکھا ہے۔ جسے جدیدیت توڑنے میں افتخار اور لذت محسوس کرتی ہے۔ تاہم اسلوبی سطح پر اقبال نے تجربہ پسندی اور روایت شکنی کا مظاہرہ ایک خاص مفہوم میں بہرحال کیا ہے۔ اقبال نے اردو شاعری میں قطعی منفرد ڈکشن ہی متعارف نہیں کروایا بلکہ اسے بے مثال تخلیقی شان کے ساتھ پیش کیا ہے۔ کچھ اس طور کہ یہ ناقابلِ تقلید ہے۔ اتنی شدید اور فقید المثال انفرادیت شاید ہی کسی دوسرے شاعر کے یہاں موجود ہو جس کا مظاہرہ اقبال نے کیا ہے۔ ماڈرن ازم میں بھی انفرادیت پر زور ملتا ہے۔ کیا اقبال کی انفرادیت کا وہی مفہوم ہے جو مغربی جدیدیت میں ہے؟ بالکل نہیں اقبال کی انفرادیت اس کی اپنی انفرادیت ہے۔ تاہم یہ مشرقی شعریات میں قابل فہم ہے۔
مشرقی شعریات میں انفرادیت کے مظاہرے کو جدت کا نام دیا گیا ہے۔ جدت کے فن میں حسن ادا، اپج، معنی آفرینی، مضمون آفرینی، نکتہ سنجی، نازک خیالی ایسی اصطلاحات کا بھی ذکر ہوا ہے۔ جدت ان سب کو محیط ہے۔ سب جدت کی فروغ ہیں، اس طور جدت کا تعلق معنی اور اسلوب ہر دو سے ہے۔ جدت بہ قول ڈاکٹر عنوان چشتی : ’’مانوس اشیا کے مخفی امکانات کی دریافت کا عمل ہے…… جدت روایت کے بطن سے نمودار ہوتی ہے، مگر روایت پرستی سے انحراف آتی ہے۔‘‘ گویا جدت انحراف ہے مگر جدیدیت کا انحراف نہیں، جدت کا انحراف بھی روایت کے حدود کے اندر ہوتا ہے۔ چنانچہ جس تخلیق کار کا روایت کا تصور وسیع گہرا، اور سرایت گیر ہوتا ہے اس کا انحراف اتنا ہی بڑا ہوتا ہے۔ اقبال کی انفرادیت دراصل جدت ہے۔ جدت کا مظاہرہ ہر چند اور بھی کئی اردو شعرا نے کیا ہے مگر روایت کا جتنا وسیع اور گہرا تصور اقبال کا تھا اتنا کسی دوسرے اردو شاعر کا مشکل سے ہوگا۔ اقبال کی انفرادیت ناقابلِ تقلید تو ہے مگر اپنی مشرقی روایت میں قابلِ فہم بہرحال ہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اقبال نے مشرقی ادبیات کی روایت کو کھوجا ہی نہیں تھا اسے مرتب بھی کیا۔ اقبال نے فارسی، عربی، اردو، سنسکرت، ادبیات کو ایک روایت ٹھہرایا اور اسے اپنی شاعری کی روح رواں بنایا۔ ان کے یہاں فارسی شعرا ملا عرشی، ابو طالب کلیم، فیضی، صائب، مرزا بیدل، عرفی، خاقانی، انوری، سنائی، حافظ، سعدی اور سب سے بڑھ کر فکر رومی کے اثرات بالواسطہ اور بطور تضمین ملتے ہیں۔ عربی ادبیات سے انھوں نے ہر چند کسی مخصوص شاعر کے اثرات نہیں لیے مگر عربی شعریات کے اصول سادہ بیانی اور صحرائیت پسندی ضرور قبول کیے۔ مولانا غلام رسول مہر نے جب طلوعِ اسلام پر تنقید کی تو اقبال نے جواب دیا کہ ’’میں عربی شاعری کی روش پر بالکل صاف صاف اور سیدھی سیدھی باتیں کہہ رہا ہوں۔‘‘ اسی طرح انھوں نے متعدد قرآنی آیات کو راست یا ان کے ترجمے کو اپنی شاعری میں پیش کیا۔ اقبال کا تصور روایت اگرچہ ایلیٹ کے تصور روایت سے مختلف ہے مگر دونوں میں یہ مماثلت موجود ہے کہ ایلیٹ نے تمام مغربی ادب ہومر سے بائرن تک کو ایک روایت قرار دیا۔ اقبال نے روایت کی تنقیدی تھیوری پیش نہیں کی، مگر ادبی روایت کو مسلسل جاری روایت کی صورت اپنی شاعری میں مرتب، دریافت اور پیش کیا ہے۔ اقبال کی روایت مشرقی اسلامی روایت ہے۔ عبدالمغنی کا یہ کہنا درست ہے کہ ’’اقبال کی شاعری درحقیقت مشرقی ادبیات کی تمام شاعرانہ روایات کا نقطۂ عروج ہے۔‘‘
اقبال کا تصور روایت، مابعد جدید تنقیدی اصطلاح میں بین المتونی (Intertextual) ہے۔ فارسی، عربی، اردو اور سنسکرت ادبیات مختلف متون ہیں جنھیں اقبال نے باہم ممزوج کیا ہے۔ اقبال نے مختلف مشرقی روایات کو ایک نئے متن میں منقلب کر دیا ہے۔ یعنی یہ روایات اقبال کے شعری متن کے میکانکی اجزا نہیں نامیاتی عناصر ہیں۔ اقبال کا شعری متن ایک زندہ متن ہے اور ایک زندہ وجود کی طرح ہی نہ صرف حسی تحریک کا حامل ہے بلکہ مخصوص زاویۂ نظر اور آئیڈیالوجی بھی رکھتا ہے۔ماڈرن ازم کے ’’نظام فکر‘‘ میں فرد کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ یہ اہمیت تین چار سطحوں پر فرد کو تفویض ہوئی ہے۔ فرد بطور منفرد و تنہا وجود، فرد کا زندگی کو مستند اور براہ راست طریقے سے تجربہ کرنا اور اس تجربے کے نتیجے میں اپنی تقدیر یعنی بے چارگی، تنہائی اور لغویت سے آگاہ ہونا، فرد کا سماج، فطرت اور کائنات سے داخلی انقطاع کی صورت حال سی دوچار ہونا۔ جدید ادب کا فرد ایلی نیشن کا شکار ہے۔
ایلی نیشن کا تصور مارکسیت میں بھی ملتا ہے مگر جدیدیت اور مارکسیت کی ایلی نیشن ایک جیسی نہیں ہیں۔ مارکسی ایلی نیشن یہ ہے کہ فرد اپنی محنت کے وسائل اور ثمرات سے بوجوہ اجنبی ہو جاتا ہے۔ جبکہ جدید فرد کی ایلی نیشن ایک خاص فلسفیانہ تصور کی پیدا کردہ ہے…… دل چسپ بات یہ ہے کہ اقبال کے یہاں بھی فرد موجود ہے۔ یہاں اشارہ اقبال کے مردِ مومن کی طرف نہیں۔ مرد مومن ایک آدرش ہے جس میں وہ تمام بہترین خصوصیات یکجا ہو گئی ہیں جنھیں اسلامی تاریخ میں پیش کیا گیا ہے۔ مردِ مومن ایک ’’غیر شخصی‘‘ تصور ہے۔ یہ بشری تقاضوں سے بلند اور اعلیٰ انسانی مقاصد کا علم بردار ہے۔ اقبال کی شاعری میں بالخصوص بال جبریل کی غزلوں میں ایک اور فرد ظاہر ہوا ہے۔ یہ ایک شخصی وجود ہے۔ اس کا اپنا نقطہ نظر اور اپنے سوالات ہیں۔ ہر چند اس کا لہجہ پرتمکین اور کہیں جلالی ہے۔ مگر یہ ایک حقیقی فرد ہے۔ اور اسی لیے تنہا بھی ہے۔ یہ چند اشعار اسی فرد کا اظہار ذات ہیں:
میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بت کدہ صفات میں
تو نے یہ کیا غضب کیا ، مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں
-------
اگر کج رو ہیں انجم ، آسماں تیرا ہے یا میرا
مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو ، جہاں تیرا ہے یا میرا؟
اس کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن
زوالِ آدم خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا؟
-------
تو ہے محیطِ بے کراں میں ہوں ذرا سی آب جو
یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بے کنار کر
باغِ بہشت سے مجھے حکم سفر دِیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر
-------
یہ مشتِ خاک ، یہ صرصر ، یہ وسعتِ افلاک
کرم ہے یا کہ ستم تیری لذت ایجاد!
مذکورہ اشعار میں ایک ایسا فرد آشکار ہے جو تنہا مگر ایک اور ہستی کے رُوبرو بھی ہے اور رُوبرو ہونے سے ہی فرد اپنے وجود کی منفرد معنویت دریافت اور تلاش کرتا ہے حقیقتاً اس فرد کو اپنی بے معنویت کا سامنا نہیں بلکہ اپنی معنویت کے ازسرنو تعین کے سوال کا سامنا ہے۔ چنانچہ یہ اس بے چارگی اور لغویت کا شکار نہیں جو جدیدیت کے فرد کو اس کی تقدیر کی صورت درپیش ہے۔ حالانکہ اقبال کا فرد بھی زندگی کا مستند اور حقیقی تجربہ کر رہا ہے جسے جدیدیت کا فرد اپنے لیے لازم ٹھہراتا ہے۔ اقبال کے بعض ناقدین نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اقبال کی شاعری میں جدید فرد کہیں موجود نہیں۔ اقبال نے فرد کا پُرعظمت تصور پیش کیا مگر جدید انسان جس ٹوٹ پھوٹ کا شکار، جس بے چارگی میں مبتلا اور جس تنہائی کے کرب سے دوچار ہے، اقبال نے اسے اپنی شاعری میں کہیں پیش نہیں کیا۔ ان ناقدین کے نزدیک اقبال نے حقیقی فرد کو نہیں فرد کے مثالی اور Glorifiedتصور کو پیش کیا ہے۔ ان نقادوں نے غالباً مرد مومن کے تصور کو سامنے رکھا ہے اور اس فرد کی آواز نہیں سنی، جس کی زبانی چند اشعار اوپر درج کیے گئے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ اقبال کا فرد اپنے وجود کے باطنی سرچشمے سے منقطع نہیں ہوا، جب کہ جدید ادب کا فرد اپنے وجود کی معنویت کا یقین نئے سرے سے چاہتا ہے مگر معنویت کے گم ہو چکنے یا ’’بے معنی‘‘ ہونے کے بحران کا اسے سامنا نہیں ہے۔ نئے سرے سے معنویت کی طلب پر ماڈرنیٹی کی عقلیت پسندی کی پیدا کردہ تشکیک کا ہلکا سا سایہ موجود ہے مگر یہ طلب باطنی اور مابعد الطبیعیاتی سرچشمے پر سوالیہ نشان نہیں لگاتی۔ جدیدیت (ماڈرن ازم) میں یہ سوالیہ نشان جلی طور پر موجود ہے۔لہٰذا جدیدیت اور اقبال کے فرد میں جو بنیادی فرق پیدا ہوا ہے وہ دونوں کے جداگانہ ’’ورلڈ ویو‘‘ کی وجہ سے ہے۔ جدیدیت کے فرد کا ’’ورلڈ ویو‘‘ روایت اور مابعد الطبیعیات کی نفی پر استوار ہے۔ مگر اقبال کے فرد کا ’ورلڈ ویو‘‘ ان دونوں کے اثبات پر مبنی ہے۔ ایک کی محرومی دوسرے کی قوت ہے۔
یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ جدید فرد نے بیسویں صدی کے عظیم سانحات (عالمی جنگیں، اقتصادی بدحالی وغیرہ) کو جھیلا، اس لیے وہ بے بسی اور بے معنویت کے احساس میں مبتلا ہوا۔ کیا اقبال کے یہاں ان سانحات کی گونج موجود ہے؟ یہ الگ تفصیلی مطالعے کا متقاضی ہے۔ تاہم ایک بات واضح ہے کہ کسی سانحے کو جھیلنے میں فرد کا ’ورلڈ ویو‘‘ (World View) اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایک مذہبی آدمی کسی المیے کا سامنا جس طور کرتا ہے، مذہب بیزار فرد اسی المیے کو کسی اور طریقے سے محسوس کرتا ہے۔
ماڈرن ازم کا تعلق اگر اقبال کی شاعری سے ہے تو ماڈرنیٹی اور ماڈرنائزیشن (تجدید کاری) کا تعلق اقبال کی فکر سے ہے۔ واضح رہے کہ اقبال کی فکر بیک وقت ان کی نثر اور شاعری میں ظاہر ہوئی ہے۔ سلیم احمد نے اقبال کی شاعری کا امتیاز ہی فکر کو قرار دیا ہے اور اس فکر کو اقبال کی انفرادی فکر بھی قرار دیا ہے۔ سلیم احمد نے جذبے، تصور اور جبلت سے تو فکر کو ممیز کیا ہے مگر فکر کی قسموں اور سطحوں میں فرق نہیں کیا اور نہ یہ بتایا کہ کہاں ان کی شاعری خاصل فکر کو اور کہاں شاعرانہ فکر کو پیش کرتی ہے۔ مثلاً اقبال کے یہاں متعدد اشعار ایسے موجود ہیں جو خالص فکر کو پیش کرتے ہیں فقط دو شعر دیکھیے :
عشق اب پیرویِ عقل خداداد کرے
آبرو کوچۂ جاناں میں نہ برباد کرے
کہنہ پیکر میں نئی روح کو آباد کرے
یا کہن روح کو تقلید سے آزاد کرے
ان اشعار کو اقبال کے فکری موقف کا ترجمان سمجھا جا سکتا ہے۔ اور یہی خالص فکر کی نشانی ہے۔ جب کہ اس قسم کے اشعار ان کی شاعرانہ فکر کے علم بردار ہیں :
پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے
جو مشکل اب ہے یارب! پھر وہی مشکل نہ بن جائی
مذکورہ بالا اشعار جو اقبال کے فکری موقف کے ترجمان کے طور پر پیش کیے گئے ہیں، ماڈرنیٹی سے متعلق اقبال کے تصور کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ماڈرنیٹی کا اہم داعیہ عقلیت ہے اور اقبال نے بھی عشق کو عقل کی برتری تسلیم کرنے کی تجویز دی ہے۔ اس شعر کو اقبال کے عشق و عقل کے تصورات کے تناظر میں بھی اگرچہ دیکھا جا سکتا ہے مگر اقبال نے ان اشعار کو ’’ادبیات‘‘ کے عنوان کے تحت لکھا ہے اور ’’ضربِ کلیم‘‘ میں انھیں درج کیا ہے جو عہد جدید کے خلاف اقبال کے اعلانِ جنگ یعنی اقبال کے فکری موقف کی علم بردار ہے۔ عقل کی اہمیت کا دوسرا مطلب عقلی وسائل کی مدد سے مذہبی و معاشرتی تجدید ہے۔ اس میں دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ اقبال تجدید یا ماڈرنائزیشن یا تجدید کاری کا تصور کیا تھا؟ اس تصور کا سرچشمہ Originکیا تھا اور اس کے مضمرات و امکانات کیا تھے؟
یہاں اقبال کے تجدید کاری کے تصور کی جملہ پیچیدگیوں میں جانا ممکن نہیں، اس تصور کے مرکزی نکتے کو بیان کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ خود اقبال کی زبانی سنیے : خطبات (مذہبی فکر کی تشکیل نو) میں لکھا ہے :
"The only course open to us is to approach Modern knowledge with a respectful but independent attitude and to appreciate the teachings f Islam in the light of that knowledge even though we may be led to differ from those who have gone before us."
یعنی جدید مسلمانوں کے لیے واحد راستہ یہ ہے کہ وہ جدید علم سیکھیں اور اس کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کی تحسین کریں۔ تحسین کا لفظ اقبال نے اس لیے استعمال کیا ہے کہ انھیں یقین ہے کہ اسلام ماڈرن علوم کی تحقیقات کی نفی نہیں، تائید و توثیق کرتا ہے گویا اسلام جامد نہیں متحرک نظام حیات ہے۔ چنانچہ اقبال نے ماڈرنیٹی کا مفہوم و مدع یہ لیا کہ نہ صرف جدید عقلی و سائنسی علوم کو پڑھا جائے بلکہ مذہبی صداقتوں سے ان کی تطبیق بھی کی جائے۔ دوسرے لفظوں میں اقبال کی ماڈرنیٹی عقل و عقیدے، سائنس و مذہب کی تطبیق پر مبنی ہے۔ ماڈرنیٹی کے اسی ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے اقبال نے واضح اور ثابت کیا کہ توسیعِ کائنات اور ارتقائے حیات کے تصورات اس قرآنی آیت میں (اشارتاً) موجود ہیں:
’’تم کہہ دو کہ تم زمین میں چلو پھرو، پھر غور سے دیکھو کہ اللہ نے خلق کو شروع کیوں کر کیا۔ پھر وہی اللہ ان کی آخری اٹھان بھی اٹھا لے گا۔ بے شک اللہ ہر چیز پر پوری پوری قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘(۲۹:۲)
اسی طرح اقبال کے خیال میں آغازِ حیات کے نئے نظریات ابن مسکویہ اور رومی کے یہاں موجود ہیں مثلاً رومی کے یہ اشعار :
آمدہ اول با قلیم جماد
در نباتی از جمادی او فتاد
سالہا اندر نباتی عمر کرد
وز جماتی یا دناورد از بزد
نایدش حال نباتی ، ہیچ یاد
باز از حیواں سوے انسانیش
می کشدگاں خالقے کہ دانیش
مزید برآں اقبال نے ایٹمی نظریے کا سراغ اشاعرہ کے یہاں لگایا ہے۔ اشاعرہ نے ہی، اقبال کے خیال میں، سب سے پہلے وقت کے مسئلے پر غور کیا اور کہا کہ وقت مفرد ’’اب‘‘ کا تسلسل ہے۔ اقبال کا قصۂ قدیم و جدید کو دلیل کم نظری قرار دینا اشاعرہ کے اسی تصور وقت سے ماخوذ ہے۔ اقبال نے فخر الدین رازی، ملا جلال الدین دوانی، عراقی اور ملا باقر کے جدید نظریات کا بھی ذکر کیا ہے۔ اقبال کی ان کوششوں کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ ماڈرنیٹی اور اسلام میں کوئی مغائرت نہیں۔ ماڈرنیٹی اپنی جن علمی و سائنسی تحقیقات پر تفاخر کرتی ہے وہ اسلام اور اسلامی تاریخ کے لیے اجنبی نہیں ہیں۔ استقرائی طرز فکر جدید مغربی تہذیب کی بنیاد ہے اور اقبال اس فکر کو اسلام کا اختصاص قرار دیتے ہیں اور اسی لیے وہ مغربی تہذیب کو ایک مخصوص تناظر میں اسلامی تہذیب کی توسیع بھی کہتے ہیں۔ اقبال کے اس دعویٰ کی علمی و تاریخی بنیاد کا سوال ایک طرف، اس دعویٰ نے یہ تاثر ضرور مٹا دیا کہ جدیدیت کا دوسرا نام ’’مغربیانا‘‘ (ویسٹرنائزیشن) ہے۔ اقبال کی یہ عطا کچھ کم نہیں کہ انھوں نے جدیدیت کو مغربیت سے آزاد کیا جو سرسیّد سے نہیں ہو سکا تھا۔
اقبال کے تصورِ جدیدیت کا سرچشمہ ایک طرف سرسیّد کا اصولِ تطبیق ہے (سرسیّد نے کہا تھا کہ ہمارے پاس اب ایک ہی راستہ ہے کہ یا تو حکمتِ جدیدہ کا بطلان کر دیا جائے یا اس سے ہم آہنگ ہوا جائے۔ سرسیّد نے ہم آہنگ ہونے کو ترجیح دی) اور دوسری طرف اقبال کے عہد کا سماجی اور علمیاتی تناظر ہے۔ ڈاکٹر منظور احمد کا یہ کہنا وزن رکھتا ہے کہ اقبال کی فکر کو ان کے عہد کے تناظر میں دیکھا جائے کہ اقبال نے ماڈرنیٹی کے ضمن میں جو موقف اختیار کیا وہ اسی تناظر میں انھیں سوجھا اور اسی تناظر میں وہ موزوں اور vaildبھی ہے۔ حقیقتاً ماڈرنیٹی اور ماڈرنائزیشن تمام غیر مغربی اقوام اور بالخصوص اسلامی ممالک کا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کا مستقل اور ہر سطح پر قابل قبول حل اب تک پیش نہیں ہو سکا۔ اور مختلف ممالک میں جو حل تجویز کیے گئے ہیں وہ ان ممالک کے سماجی تاریخی تناظر کے زائیدہ ہیں۔ نیز ایک ہی ملک میں مختلف اوقات میں مختلف حل سامنے آئے ہیں۔ مثلاً ترکی اور مصر میں ابتدا میں ماڈرنائزیشن سے مراد مغرب کی عسکری ٹیکنیک کا حصول تھا۔ اور ہندوستان میں ابتداً ماڈرنائزیشن کا مطلب جدید مغربی انگریزی تعلیم سے بہرہ مند ہونا تھا۔ گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ محکوم ممالک میں ماڈرنائزیشن بڑی حد تک ویسٹرنائزیشن کے مترادف سمجھی گئی ہے۔ اس لیے کہ مغرب نے غیر مغربی اقوام کو اپنی تہذیب کے جس پہلو سے زیادہ متاثر یا مغلوب کیا وہی پہلو محکوموں کا آدرش بنا۔ غالباً اسی لیے اقبال نے کہا تھا :
بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردانِ حر کی آنکھ ہے بینا
چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ غلام اقوام نے ماڈرنیٹی کا بالعموم سطحی تصور قائم کیا ہے۔ انھوں نے ماڈرنیٹی کو اس کے ہمہ گیر تناظر میں نہیں دیکھا، اس پراسس کو سمجھنے کی سعی نہیں کی، جس نے ماڈرنیٹی کو ممکن بنایا۔ ٹیکنالوجی یا علوم تو ماڈرنیٹی کے آئس برگ کا وہ معمولی سا حصہ ہیں جو سمندری پانی سے باہر ہوتا ہے۔ ماڈرنیٹی کے پورے پراسس کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہی بیشتر مسلم ممالک میں ماڈرنیٹی ممکن نہیں ہوئی۔ اقبال کو اس امر کا شدت سے احساس تھا انھوں نے سیّد سلمان ندوی کے نام خط میں لکھا کہ ’’مسلمان ذہنی انقلاب کے اسی مرحلے میں داخل ہونے والے ہیں جس سے یورپ لوتھر کے زمانے میں گزرا تھا‘‘ (مگر کیا واقع؟) اقبال اس نوع کا ذہنی انقلاب لانے کی غرض سے ہی اسلامی فقہ کی تدوین نو کرنا چاہتے تھے، صوفی تبسم اور غلام السیدین کے نام مکاتیب میں اقبال نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے۔اب ایک نظر اقبال کے ’’تصور جدیدت‘‘ کے حدود اور امکانات پر!اقبال عقلیت اور جمہوریت کے مخصوص تصور کے قائل تھے۔ آمریت شہنشاہیت اور ملائیت کے خلاف تھے اس ضمن میں ان کے یہاں درجنوں فارسی اور اردو اشعار موجود ہیں۔ اسی طرح ذہنی جمود کے نکتہ چیں اور متحرک نظام فکر میں یقین رکھتے تھے مگر مظہر الدین صدیقی کے بہ قول اقبال نے ماڈرنائزیشن کے مسئلے کا تجریدی اور فلسفیانہ حل تو بخوبی دریافت کیا، مگر :
"He does not seem to have realised the importance of the socio-economic structure in moulding mess's minds, lives and personality.
ہر چند اقبال کی شاعری میں معاشی سماجی عوامل کا ذکر لکھا ہے تاہم ایک تھیوری کے طور پر اقبال نے اسے پیش بہرحال نہیں کیا۔ اس لیے کہ اقبال کا مطمح نظر مذہب و سائنس کی تطبیق تھا۔ اصولی طور پر جب وہ چیزوں کو اکٹھا کیا جاتا ہے تو ایک لازماً برتر اور دوسرے کو ثانوی اور اس پر منحصر قرار دیا جاتا ہے۔ اقبال نے مذہب، سائنس یا عقل و وجدان کے ضمن میں جو درجہ بندی کی، اس میں اوّلیت مذہب اور وجدان کو دی اور عقل اور سائنس کو مذہب کی تعبیر نو کا وسیلہ بنایا۔ دوسرے لفظوں میں عقل اور سائنس کو ان کی آزاد حیثیت میں قبول کرنے کی بجائے انھیں مذہبی صداقتوں کے تابع رکھا۔ انھیں مقصد نہیں وسیلہ قرار دیا۔ جس کا صاف مطلب ہے کہ انھوں نے آزادانہ سائنسی تحقیقات کے حق میں آواز بلند کرنے کے برعکس ’’ہو چکی سائنسی تحقیقات‘‘ سے (ایک خاص مقصد کے تحت) استفادے پر زور دیا۔ ہر چند بعض مقامات پر اقبال نے عقل کی برتری کا دعویٰ کیا ہے مگر بالعموم عشق کے مخصوص و محدود تصور کے مقابلے میں ایسا کیا ہے۔ سائنس کی برتری کو تسلیم کرنا شاید اقبال کے لیے ممکن نہ تھا کہ سائنس نے جس ماڈرنیٹی سے جنم لیا ہے، وہ اپنی اصل میں ’’بشر مرکزیت‘‘ ہے۔ اقبال عالم گردوں کو بشریت کی زد میں ٹھہرانے کے باوجود بشر کو مرکز فلسفے کو قبول نہیں کر سکتے تھے کہ اسے قبول کرنے کا مطلب ماڈرنیٹی کو پورے کا پورا قبول کرنا تھا۔ صاف لفظوں میں یہ کہ علم کا سرچشمہ وحی کے بجائے انسانی عقل تسلیم کرنا تھا۔ اقبال ماڈرنیٹی کو تنقیدی اور انتخابی طور سے قبول کرنے کے حق میں تھے۔ اقبال ماڈرنیٹی کے نکتہ چیں بھی تھے اور مداح بھی۔ اقبال دراصل اپنی اسلامی ثقافتی نہاد کو قائم و برقرار رکھتے ہوئے مغربی جدیدیت سے اخذ و استفادے کے قائل نظر آتے ہیں۔ ایک خاص مفہوم میں یہ ایک جدید اور ترقی پسندانہ نقطہ نظر تھا۔