اردو کی بستیوں میں ادب کی صورتحال پر میں نے چار سال پہلے جو رائے لکھی تھی وہ اس اداریہ میں دہرانا پڑ رہی ہے۔یہ رائے یہاں کے صرف جینوئن لکھنے والوں کے حوالے سے ہے۔
’’ اگر خالصتاَ ادبی سطح پر بات کی جائے تو مغربی ممالک میں تخلیقی سطح پر کوئی ایسا بڑا بریک تھرو دیکھنے میں نہیں آیاجس سے کہا جا سکے کہ اردو کے ادبی سرمایہ میں کوئی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔۔۔۔۔وہ شاعر اور ادیب جو مغربی ممالک میں طویل قیام کی پہچان رکھتے ہیں اور دلجمعی کے ساتھ ادبی خدمت میں مشغول ہیں،ان سب کی ادبی پہچان ادب کے مرکزی دھارے کے حوالے سے ہی ہوتی ہے۔مغربی ممالک کی تخصیص کے ساتھ ان کی انفرادیت ادبی طور پر سامنے نہیں آتی۔مثلاََ شاعری میں ابھی تک روایتی اور ترقی پسند انداز کا ملا جلا رنگ رائج ہے۔البتہ کبھی کبھی یادِ وطن کے حوالے سے بعض اچھے اشعار ضرور سامنے آجاتے ہیں ۔یہاں کے افسانہ نگاروں کا ایک اہم موضوع ہجرت یا ترکِ وطن ہے۔اس موضوع پر بہت کہانیاں لکھی گئی ہیں ۔لیکن ہجرت کے موضوع پر ۱۹۴۷ء کے بعد پاکستان اور ہندوستان میں جس پائے کی کہانیاں لکھی جا چکی ہیں،مغرب کے ہمارے اردو افسانہ نگار اس سطح کو مس بھی نہیں کر سکے۔شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ ۱۹۴۷ء کی ہجرت نے دلوں میں گہرے گھاؤ پیدا کئے تھے۔۔۔۔سب دکھی تھے۔جبکہ مغرب میں آبسنے والے وطن سے زیادہ آرام کی دنیا میں آتے ہیں ۔یہاں کا کھلا ماحول انہیں شاید ان کیفیات سے آشنا ہونے ہی نہیں دیتا جو تخلیقی کرب کا لازمہ ہے۔مغربی چکا چوند میں جنس نگاری کی طرف رغبت فطری بات ہے۔لیکن اس میں بھی خرابی یہ ہوئی کہ منٹو ، عصمت چغتائی اور ممتاز مفتی اس حوالے سے جتنا کچھ اردو کو دے گئے ہیں،اس کے بعد مغرب کے اردو افسانہ نگار جنسی لذت تو کشید کر لیتے ہیں لیکن فن کی اس سطح تک نہیں پہنچ پاتے جو ایک معیار کے طور پر پہلے سے اردو میں موجود ہے۔ افسانے کی دنیا میں جہاں ہمیں اپنے ثقافتی تصادم کا سامنا کرنا پڑا ہے اور جہاں مختلف ثقافتی المیے سامنے آتے ہیں وہاں چند اچھی کہانیوں نے تبدیلی کا احساس دلایا ہے۔۔۔۔۔۔۔تاہم ثقافتی تصادم کی عام کہانیاں بھی اخباری رنگ میں زیادہ بیان کی گئی ہیں یا پھر خواتین کے زیب النساء طرز میں لکھی گئی ہیں۔ مغرب میں شاعروں اور ادیبوں نے مغربی سائنسی ترقیات اور جدید تر صورتحال کو تاحال گہری اور تخلیق کارکی نظر سے نہیں دیکھا۔یہی وجہ ہے کہ ان موضوعات سے ان کے افسانے خالی ہیں۔اس کے باوجود وہ سارے اوریجنل تخلیق کار داد اور تحسین کے مستحق ہیں جو پردیس میں بیٹھ کر اپنے دیس کی زبان کو نہ صرف یاد رکھے ہوئے ہیں بلکہ اس کی محبت میں اپنی بساط کے مطابق تخلیقی کام بھی کئے جا رہے ہیں۔ان سب کا جذبہ قابلِ قدر ہے۔‘‘
(’’تیسرے ہزاریے کے آغاز پر اردوکا منظر،مطبوعہ ماہنامہ اخبارِاردو اسلام آباد۔شمارہ اکتوبر ۲۰۰۳ء )
حیدر قریشی