بڑی چاندنی راتیں تھیں
چھاؤں کی تھی تاروں کی
سکھیوں سے باتیں تھیں
کیا رُوپ نکالا تھا
تازہ مکھن تھا
لسّی کا پیا لا تھا
دو، دودھ کی دھاریں ہیں
سکھیاں بچھڑ گئیں
کونجیں ہیں ،نہ ڈاریں ہیں
زنجیر ہے پاؤں میں
دنیا دیکھ چکی
چل واپس گاؤں میں
اک نہر کنارا ہے
گاؤں کا ہر ذرّہ
مجھے جان سے پیارا ہے