محمد زبیر ٹیپو(اسلام آباد)
آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ میں کسی جیل کے قیدی سے ملاقات کا ذکر کروں گا یا کسی مریض سے ملاقات کے بارے میں دلچسپ انشائیہ لکھوں گا تو جناب!ایک بات آپ کو بتادوں ۔آج کا انشائیہ بالکل دلچسپ نہیں۔خشک ہے خشک!
نہ ہی اس انشائیہ میں محبوبہ سے ملاقتوں کا ذکر ہے کہ آپ جذباتی ہوں۔کبھی رومانوی باتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہوں۔کبھی محبوبہ کی نازو ادا کے بارے میں مطالعہ کر رہے ہوں۔درمیان درمیان میں کسی رقیب کا ذکر ہو۔ ایسا ہر گزنہیں۔
آپ خاص طور پر مجھ سے یہ امید نہ رکھئیے۔ میں شاعر نہیں نہ غزل لکھ سکتا ہوں۔ حسین باتیں،جمالیاتی مشاہدے کی باتیں کر سکتا ہوں یعنی نثر کو شعری چاندنی کا انداز دے سکتا ہوں لیکن دینا نہیں چاہتا۔اس معاملے کو میری کمزوری میں شمار نہ کریں۔میری طاقت جانئیے ۔اس میں آپ کا فائدہ ہے۔
میں بڑادل پھینک قسم کا انشائیہ نگارہوں۔یہ خوبی صرف شاعروں میں ہی نہیں۔ مجھ میں بھی ہے۔ آئیے چاروناچار اس کی طرف ایک قدم بڑھائیں۔
میں ملاقاتیں اس قیدی سے کرنا چاہتا ہوں جو دردو غم کا شاعر کہلاتا تھا۔ کاش میں اس کے ساتھ اس کی واردات محسوس کرتا اور آج بہت سے راز اس کی شاعری کے جو آپ پر اور مجھ پر نہیں کھولے وہ کھولتا۔اس طرح ایک بہت بڑے زمانے سے ملاقات میں رہتا۔جو کہ بعد میں اردو ادب کا پہلا بڑادور ہونا تھا۔پھر ذاتی اور غیر ذاتی محفلوں میں ان کے زمانے کے دوسرے اساتذہ، شعراء،سے ملاقاتیں ہوتیں اور آج میرا لکھا ہوا بھی کلاسک میں شامل ہوتا کیونکہ اس زمانے میں جو کچھ بھی لکھا ہوا تھاوہ آج کلاسیکی ادب کہلاتا ہے۔
میں غالبؔکے زمانے میں دہلی کا صاحب ذوق نوجوان ہوتا۔غالب سے ملاقاتیں ہوتیں۔مجھ سے تو اچھا وہ سپاہی ہے جو غالبؔکو قید میں اپنا کلام سناتا تھا۔غالب کے ہم عصر شعراء میں شامل ہوتا ۔کبھی غالب کے ساتھ محفل میں بیٹھا ہوا آم کھا رہا ہوتا اور غالب کاکلام غالب کی زبان سے سُن رہا ہوتا۔مومن سے ملاقات ہوتی۔حالی سے ملاقات ہوتی۔شاہی دربار میں آنا جانا ہوتا اور میرو غالب کے معاشی حالات بہتر کرنے میں ان کی مدد کرتا اور صلے میں ان کی تحریروں میں کہیں ایک آدھ خط اپنے نام بھی لکھواتا تاکہ تاریخ میں اپنا نام رقم ہو جاتا۔
نظیر اکبر آبادی کے زمانے میں بھی ہوتا تاکہ وہ جلد سامنے آجاتے اور محسوس کرتا کہ انہوں نے معاشرے کی سنجیدگی کو کس طرح مزاح میں تبدیل کیا ہے۔
آہ !کیا زمانے تھے برصغیر ایک نئی انگڑائی لے رہا تھا۔ سوئے ہوئے دماغ بیدار ہو رہے تھے۔ قید میں مقید روحیں آزادی پسندی کی طرف پرواز کر رہی تھیں۔ صاحب علم محترم’’سر سیّد احمد خان‘‘، محسن قوم پیدا ہوتے ہیں۔ کاش میں ان کے ساتھ مل کر علی گڑھ کی تحریک چلاتا اور ان کا دایاں بازو ہوتا۔
بہر حال غالب ہی کی بات کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔‘‘
پھر علامہ اقبال کے ساتھ ہوتا۔ ان کے شاہین اور مرد مومن کا فلسفہ ان سے سنتا۔ عقل کے خلاف ان کی آراء کیوں سامنے آئی۔جمہوریت کو ناپسند کیوں کرتے تھے۔ پھر آخر میں ان سے سوال کرتا کہ آپ کی شاعری اور مقالات میں خیالات کا تضاد کیوں ہے؟اصل فکر اقبال شاعری ہے یا نثر
پھر فیض احمد فیض صاحب سے ملاقات ہوتی ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے، ان کی شاعری کی زبان ان کے زمانے کے شاعروں سے ملاقاتیں کرتا ۔ جوش ملیح آبادی سے ملاقات ہوتی اور میں ان تمام کے ادبی خاکے آج آپ کو پیش کرتا۔ مولانا محمد حسین آزاد کی طرح ایک اور اعلیٰ ادبی شخصیت پر خاکوں کی کتاب لکھتا جوآج آپ کے ہاتھوں میں ہوتی۔
اس سارے عمل تک رسائی وقت کی پابند نہیں ہو سکتی تھی ورنہ جدید سائنس کی مہربانی ہے کہ ان لوگوں کی شاعری اور شخصیتوں کے ہلکے پھلکے پہلو ہم تک پہنچ سکے۔
آج کی ترقی یافتہ اور جدید ترین سائنس کی ترقی میں دنیا کے مسائل ایسے ہیں کہ آپ اس زمانے کے بڑے ادیبوں سے بھی ملاقاتیں نہیں کر سکتے۔
میں ان تمام لوگوں کے زمانوں میں زندہ رہنا چاہتا ہوں جو ۱۸۵۷ء سے ۱۹۷۳ء تک تھے جن کے گھروں کو ان کے لئے مقتل گاہ بنا دیا گیا تھا۔
پھر اس ظالم اور بدترین انسان سے ملاقاتیں کرتا جس نے انسانیت کو ابو جہل سے بھی زیادہ نقصان پہنچایا جس نے ایٹم بم ایجاد کیا۔
دو عالمی جنگوں کے ہیروز سے کاش ملاقات ہوتی میں ان میں سے کسی ایک کا مشیر ہوتا اور ان کوا ن غیر انسانی روشوں اور سوچ پر پہلا قدم نہ اٹھانے دیتا جس کی وجہ سے لاکھوں انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔
میں اس کلچر سے ملاقات نہیں کرنا چاہتا جس کو اپنانے والے خود اس کے ہاتھوں داغ اذیت اور ذلت سے آج لطف اندوز ہو رہے ہیں اور کبھی ایڈز کی بیماری دریافت کرتے ہیں تو کبھی میوزک کے آلات سے علاج تلاش کر رہے ہیں۔ میں اپنے مشرقی کلچر کو اپنانا چاہتا ہوں جس میں تمام رشتوں ناطوں کی اقدار مقرر ہیں اور روز ان میں بہتری آرہی ہے۔یہاں بڑھاپے کا بیماری کا علاج فیملی کمبائن سسٹم میں موجود ہے جہاں ادبا کے ساتھ خدمت کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے۔مجھے تو روز اس میں بہتری پیدا کرنے کی گنجائش نظر آرہی ہیں۔
میں اس کلچر میں رہنا چاہتا ہوں جس میں عورت کے ارد گرد خوبصورت انسانی رشتوں کا حصار موجود ہے اور عورت کو باپ کی جائیداد میں حصہ دیا جاتا ہے اور کبھی حق دار کو حقوق دیئے گئے ہیں کئی فرائض کی ذمہ داری کا اس پر بوجھ ہے۔
میں کاش اسی وقت ہوتا جب راجہ پورس اور سکندر اعظم کے درمیان تاریخی ملاقات ہوئی ایک نے تلوار سے فتح کی اور دوسرے نے اپنی زبان سے سکندر اعظم کے شعور پر حملہ کیا اور ساری دنیا فتح کرلی۔
میں اس وقت اس کے سامنے ہوتا جب سلطان محمود غزنوی برصغیر پر حملہ کرنے آتا اور لوٹ مار کر کے واپس چلا جاتا۔
میں اس وقت کے فلاسفروں، دانشوروں میں شامل ہوتا جب سقراط کے استاد ژوب نے ہندوستان کے عہد ے دار اشوک سے علمی رہنمائی لی جو علم اہل یورپ کے لئے ترقی کا باعث بنا۔
میں رانا سانگا کے ساتھ ہوتا یعنی اس کی فوج کا جرنیل ہوتا تاکہ مغلیہ سلطنت کی داغ بیل نہ ڈالتی جس نے برصغیر کو سوائے مایوسیوں ، حسرتوں کے کچھ نہ دیا۔ صرف صلے میں انگریزدیئے۔
میں ٹیپو سلطان کا اہم مشیر ہوتا تاکہ اس کے غداروں کو بروقت پکڑ کر ایسی سزا دیتا شاید برصغیر کا نقشہ تبدیل ہوتا۔
میں اس خوش بخت کا بھائی یا دوست ہوتا جس نے تاج و تخت کو کچھ نا جانا اپنے بڑے بھائی کے آنے پر حکومت اس کے حوالے کر دی۔
میں اس عظیم شخص کا ساتھی ہوتا جس نے انسانی اور معاشرتی فاصلوں کو ختم کر دیا اور دنیا کو گلوبل ولیج بنا دیا۔یعنی ٹیلی فون کی ایجاد کرنے والے، ٹیلی فون کی جدید شکل ٹیلی ویژن ،فیکس، انٹرنیٹ وغیرہ ہے۔ کاش!میں اس کے ساتھ مل کر ٹیلی فون کا ایک پرزہ ہی بنا دیتا اور آج تاریخ میں اپنا نا م روشن پاتا۔میں اس شخص کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا جس نے انسانیت کو رات کے اندھیروں سے نکا ل کر روشنی عطا کی یعنی بلب کی ایجاد۔
پہلا ہوائی جہاز ایجاد کرنے والے کے ساتھ ہوتا، ٹرین ایجاد کرنے والے کے ساتھ ہوتا تاکہ سائنس دانوں میں میرا بھی نام شامل ہوتا۔
کیا ایسے انسان دوستوں کو دوزخ کی آگ کا ایندھن بنایا جائے گا جنہوں نے انسان کو زمین پر جنت کی سیر کروادی۔ہرگز نہیں اس بادشاہ کے ساتھ ہوتا جس نے اپنی بیوی کے مرنے پر دنیا کا پہلاہسپتال بنایا۔
کتنی خوبصورت ہوگی۔پہلی ملاقات آدم اور حواکے درمیان کتنی دلنشین ہوگی۔جنت کے باغوں کی سیر جہاں کے باغوں میں بلبل چہک رہی ہوگی ،پھولوں کی خوش بو سے اور رنگ فضا میں بکھرتے ہونگے ۔ دریاؤں ندی نالوں سے پانی کبھی شور مچاتے ہوئے گزررہا ہوگا۔کبھی میٹھے پانی کے چشمے مختلف آب شارو ں کی شکل میں حسین منظر پیش کر رہے ہوں گے۔ جتنی جنگل میں ہوا۔چلنے سے پتوں میں کتنی خوش کن سر سراہٹ پیدا ہوگی تہ در تہ ہوا آگے جاتی ہوئی آواز پیدا کر رہی ہو گی جس میں خوف نہیں بلکہ اطمینان قلب ہوگا۔آنکھوں کوجنتی ٹھنڈک محسوس ہوگی۔ احساسات کا عجیب و غریب رشک آمیز تصور ہو گا۔
ملاقاتوں کے طویل سلسلے نے ہی ان کو جنت سے زمین کی سیر کرنے پر مجبور کیا اور انہوں نے کیا عظیم فیصلہ سوچا ہوگا کہ ان محبت بھری ملاقاتوں کا سلسلہ اپنی آنے والی نسلوں کو ورثے میں دیا جائے اورسیر کے بہانے مستقل زمین پر رہائش رکھی جائے۔
اس وقت کی ملاقاتیں بغیر کسی غرض غائیت سے کی جاتی تھیں لیکن آج کی ملاقاتوں میں غرض و غائیت کا عنصر شامل ہے۔ شاید اس لئے انسان بار بار اپنے ماضی کو یاد کرتا ہے اور مستقبل سے خوف زدہ ہوتا ہے۔
یوں تو اس روز کئی ملاقاتیں دیکھنے کے لائق ہوں گی مگر بابا آدم اور اماں حوا کی ملاقات بے حد دلچسپ ہو گی میں سوچتا ہوں۔ کیسا عجیب منظر ہوگا۔مجھے یہ منظر دیکھنے کا بے حد اشتیاق ہے۔
٭٭٭
اردو کی نئی بستیاں؟
’’میری دلی خواہش ہے کہ میں یہ کہہ سکوں کہ ترکی میں اردو کا بڑا روشن مستقبل ہے!لیکن یہ بات کہنا
میرے لیے ذرا مشکل ہے،کیونکہ کسی زبان کے مستقبل کا انحصار مادری یا قومی زبان کے طور پر بولنے
والے افراد ہی پر ہوتا ہے۔سن ۲۰۰۰ء میں جب یورپین اردو رائٹرز سوسائٹی کی جانب سے منعقدہ
کانفرنس میں شرکت کی غرض سے لندن گیا اور میں نے کانفرنس کے مندوبین اور سامعین کا ذوق و شوق
دیکھا تو سوچا کہ یہ اردو کے روشن مستقبل کی علامت ہے کہ اپنے وطن سے کوسوں دور اس کی خاطر
کانفرنس،سیمینار وغیرہ منعقد ہو رہا ہے اور لوگ پُر جوش طریقے سے ان سرگرمیوں میں شامل ہوتے
ہیں۔لیکن زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ خود اردو دان طبقہ اردو کے ساتھ اس
طرح نا انصافی سے سلوک کرتا ہے تو اب مجھے اردو کے مستقبل پر اندیشہ لاحق ہونے لگا ہے۔‘‘
(ڈاکٹر خلیل طوق آر کے مضمون’’ترکی میں اردو‘‘سے اقتباس مطبوعہ مخزن بریڈ فورڈ شمارہ ۵۔۲۰۰۶ء)