نصرت ظہیر(دہلی)
ہمارے ساتھ ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ یادداشت بہت خراب پائی ہے۔عوام جو ہیں نا!حضرت کارل مارکس نے کہا تھا کہ عوام کی یادداشت کمزور ہوتی ہے۔ اگر وہ ہمیں دیکھ لیتے تو کہتے، بہت کمزور ہوتی ہے۔ہم تو جو صبح کو سوچتے ہیں وہ دوپہر تک بھول جاتے ہیں۔دوپہر کو جو سوچتے ہیں وہ شام تک ذہن سے نکل جاتا ہے۔اور شام کو․․․معاف کیجئے ہم شام کو کچھ نہیں سوچتے!
خود سے زیادہ بھلکّڑ ابھی تک ہمیں صرف ایک صاحب ملے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ محض یاد داشت کی خرابی کی وجہ سے ان کے کھانے پینے کا معمول گزشتہ چالیس برس سے بگڑا ہوا ہے۔ لنچ کے وقت ڈنر کھاتے آرہے ہیں اور ڈنر کے وقت لنچ۔مزید وضاحت کرتے ہوئے کہنے لگے، پچھلے چالیس سال سے دوپہر کے وقت پچھلی رات کا اور رات کو پچھلی دوپہر کا کھانا کھا رہا ہوں۔ہم تب بھی نہیں سمجھے۔ پوچھا ،کیا آپ کے یہاں تازہ کھانا نہیں پکتا، اورکیا ہمیشہ ریفریجریٹر میں رکھا ہوا ہی کھانا کھاتے ہیں؟فرمایا،یہ بات نہیں بھائی صاحب ۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کھانا تو تازہ ہی ہوتا ہے ۔ لیکن وہ ہوتا ہے دراصل گزرے ہوئے وقت کا ۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے آپ کو پورا قصّہ سننا پڑے گاکہ کس طرح ایک معمولی سی غلطی نے میری زندگی کا پورا حساب گڑ بڑ کر دیا۔یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ہم بھی فرصت سے تھے ۔ ہمہ تن گوش ہو گئے۔موصوف سرد آہ بھر کر بولے،’’آپ کہتے ہیں تو سناتا ہوں۔ مگر سننے سے پہلے یہ سن لیجئے کہ شاعر کیا خوب کہہ گیا ہے۔
دکھ بھری ہے یہ داستاں چچ چچ سن کے بجنے لگیں گے کاں چچ چچ
کہہ اٹھے گی زمین بھی اف اف روئے گا جب یہ آسماں چچ چچ
دکھ بھری ہے یہ داستاں چچ چچ
صاحبو!چالیس سال پہلے کی ایک منحوس صبح کا ذکر ہے۔ درختوں پر طیور یادِ خدا میں مصروف تھے۔ قمریاں قل ہواﷲ پڑھ رہی تھیں۔ تیتر سبحان تیری قدرت کی رٹ لگا رہے تھے۔مرغیاں حق ہوٗ حق ہوٗ کی صدائیں بلند کرتی پھر رہی تھیں۔ مینڈک یا غفور کی گردان کر رہے تھے۔ اور میں کم بخت ناہنجاراُسی درخت کے نیچے لیٹا ، ٹرانزسٹر پر وودھ بھارتی سے پرانے فلمی گانے سن رہا تھا۔استغفراﷲ!یہ دیکھ کر قدرت کو دفعتاً جوش آگیا۔یک بیک درخت ہلنے لگا اور غیب سے ایک صدا آئی ۔ ابے او نا معقول، یہ کیا حرکت ہے؟ بیٹری کیوں نہیں بدلتا اس منحوس ریڈیو کی۔دو ماہ سے وہی پرانے سیل رگڑے جاتا ہے۔
آواز کچھ کانوں سنی تھی۔چنانچہ میں تڑپ کر اٹھااور پلٹ کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے والد صاحب کھڑے غصے سے کانپ رہے ہیں۔یعنی، عرض کیا ہے: میں غیب داں جسے سمجھا تھا عیب داں نکلا
یہ دیکھ کر میں نے انہیں آداب کیااور کورنش بجا لایا۔مگر ان کا غصے سے کانپنا بند نہ ہوا۔تب میں نے کچھ اور کورنش بجائی اور تب تک بجاتا رہا جب تک ان کا غصہ نوسادرو کافور نہیں ہوگیا۔آخر کار بزرگوار مسکرائے اور جیب سے دس کا نوٹ نکال کر بولے۔ جا، بازار سے چاروں نئے سیل ڈلوا کے آ اور باقی روپے مجھے لا کر دے۔پھر ہم دونوں بیٹھ کر سہگل کے گانے سنیں گے جو آدھے گھنٹے بعد آنے والے ہیں!سزا چونکہ یہ سخت تھی اس لئے حفظِ ماتقدم کے طور پرمیں نے انہیں بتایا کہ اے پدرِ من ،سہگل کے گانے تو میں اس ریڈیو پر ہر وقت سنوا سکتا ہوں۔ والد نے پوچھا اے پسرِ عزیز یہ کیوں کر ہو سکتا ہے۔ میں نے کہا کہ سیل کمزور ہونے کی وجہ سے ٹرانزسٹر کی آواز بھرّانے لگی ہے چنانچہ گانا اگر لتا منگیشکر کا بھی ہو تومحسوس ہوتا ہے سہگل صاحب نغمہ سرا ہیں۔یہ سنتے ہی والدِ محترم کا غصہ پھر بیدار ہونے لگا اور اس سے پہلے کہ وہ دوبارہ کانپنے کی حد میں داخل ہوتے میں نے کھسک لینے میں عافیت جانی۔
وہ دس کا نوٹ ہاتھ میں دبا کرمیں نے بازار کا رخ کیا۔ چار کی بجائے دو سیل بدلوائے اور جو رقم باقی بچی اس سے فلم چودہویں کا چاند دیکھ کرشام کو گھر آگیا۔والد صاحب کا غصے سے برا حال تھا۔ چنانچہ میں نے فوراً آداب بجا کر کورنش بجائی اور مزید احتیاط کے طور پر ریڈیو بھی بجا دیا۔اتفاق دیکھئے کہ ریڈیو پر اس وقت بھی کے ایل سہگل کا مشہور گیت آرہا تھا، جس میں چار کہار ،سسرال اور بابل و نینواکی نہروغیرہ کا ذکر تھا۔اِدھر میں تو یہ سوچ کر حیران تھا کہ ایک شخص مرد ہو کر بھی بوقتِ نکاح اپنے والدین سے اس قدراظہارِ افسوس کیوں کر رہا ہے، ادھر والدِ محترم بڑے جذباتی انداز میں سر ہلا ہلا کر ایسے جھوم رہے تھے کہ مجھ پر غصے ہونا تو کیا باقی رقم واپس لینا بھی یاد نہ رہا۔مگر تبھی احقر کو․․․یعنی مجھے یاد آیا کہ میں تو فلم کے چکر میں دوپہر کا کھانا ہی بھول گیا ہوں۔جیسے ہی یہ بات یاد آئی ، یک لخت بھوک سے میرا برا حال ہو گیا۔ باورچی خانے سے مرغ بھوننے اور مچھلی تلے جانے کی قیامت خیز خوشبو آرہی تھی جس سے میں مرغِ بسمل اور ماہیِ بے آب کی طرح تڑپنے لگا۔میری یہ حالت دیکھ کر گھر والے قطعی نہیں گھبرائے کیوں کہ ایسا میں بارہا کرتا رہتا تھا۔پھر بھی انہوں نے آناً فاناً دستر خوان بچھایااور جو کچھ گھر میں پکا یا ادھ پکا موجود تھا مختلف قابوں میں سجا کر میرے سامنے رکھ دیا۔ میں نے خوب سیر ہوکر کھایا اور جب کھا چکا تو احتیاطاً کچھ اور کھا لیا! عین اس وقت جب میں دستر خوان سے اٹھ کر ہاتھ دھو رہا تھاپیچھے سے والد کا قہقہہِ استہزائیہ سنائی دیا۔وہ کہہ رہے تھے․․․آج تم نے ڈنر کے وقت لنچ کھایا ہے، اب اس کی سزا زندگی بھر بھگتو گے۔
اس وقت تو میں دس گیارہ سال کا بچہ تھا چنانچہ ان کی باتوں پر کوئی دھیان نہیں دیا۔مگر بزرگوں کا کہا آگے آتا ہے۔اگلے روز میں لنچ پر جب انواع و اقسام کے چرند اور پرند نوش فرما رہا تھا تو دفعتاً والدِ بزرگوار کی بات یاد آگئی اور میں سوچنے لگا کہ یہ جو میں لنچ کھا رہا ہوں تو یہ در اصل کل رات کا ڈنر ہے، جس کی جگہ میں نے کل دوپہر کا کھانا کھایا تھا! بس وہ دن ہے اور آج کا دن ۔ میں لنچ کے وقت پر پچھلا ڈنر اور ڈنر کے وقت پچھلا لنچ کھا رہا ہوں۔نہ لنچ پر لنچ کر سکتا ہوں نہ ڈنر پر ڈنر! میرے شب و روز بدل کر رہ گئے ہیں۔اور یہ سب اس لئے کہ میں ایک دن․․․صرف ایک دن ، ایک وقت کا کھانا بھول گیا تھا۔ آہ میں!‘‘
یہ کہہ کر وہ صاحب کھلکھلا کر روپڑے اور سننے والے زارو قطار ہنسنے لگے ۔ ہم نے انہیں مشورہ دیا کہ جناب آپ بس ایک وقت ، صرف ایک وقت ،پورے دو وقت کا کھانا ایک ساتھ کھا لیجئے آپ کے شب و روز فوراًسیدھے ہوجائیں گے۔یہ سنتے ہی ان کی آنکھیں حیرت اور خوشی کے ملے جلے احساس سے چمکنے لگیں اور ’یاہو‘ کے فلک شگاف نعرے کے ساتھ ایک زور کی چھلانگ لگا کروہ ہمارے قدموں میں گر گئے جب کہ ہم ڈر کے مارے اچھل کر پہلے ہی پیچھے گر چکے تھے۔انہوں نے عقیدت سے ہاتھ جوڑ کرکہا کہ واﷲ آپ جیسے پہونچے ہوئے بزرگِ باراں دیدہ سے پہلے ملاقات ہو جاتی تو اب تک میں نہ جانے کب کا اس خفقان سے نجات پا چکا ہوتا۔
آخر ہم نے انہیں اس تنبیہ کے ساتھ رخصت کر کے اپنی جان چھڑائی کہ دو وقت کا کھانا صرف ایک بارہی کھانا ، بار بار کھا کر اس کی عادت اختیا رمت کر لینا ورنہ جلد ہی تم آنے والے وقتوں کے ڈنر اور لنچ قبل از وقت کھا کر اپنی عمرِ طبیعی اور مرگِ حقیقی سے عہدہ براہوچکے ہو گے۔ہاں تو ہم کیا کہہ رہے تھے۔ یہ لیجئے اپنی ہی بات بھول گئے۔ٹھیک ہے یاد آگیا۔ در اصل ہم یہ کہنا چاہتے تھے کہ ہمیں بھی بھولنے کی بیماری ہے۔بات بات پر کچھ نہ کچھ بھول جاتے ہیں۔بلکہ کبھی کبھی تو ہمیں یہ بھی یاد نہیں آتاکہ کیا بھول گئے ہیں۔خدا رحم کرے۔
گھر کے اہم کاغذات، مثلاً ٹیلی فون اور بجلی کے بل، بنک کی رسیدیں،ریڈیو اور ٹی وی کے کنٹریکٹ لیٹر وغیرہ اپنے کمرے میں ہم کبھی یہاں وہاں پڑے نہیں چھوڑتے۔ ہر کاغذ کو سنبھال کر کسی محفوظ جگہ پر حفاظت سے رکھ دیتے ہیں، کہ جب ضرورت پڑے گی اس جگہ سے اٹھا لیں گے۔لیکن بھلا ہو بری یادداشت کا، جس کی وجہ سے ہمارا ہر کاغذ اس درجہ محفوظ ہو جاتا ہے کہ دوسروں کے تو کیا خود ہمارے بھی ہاتھ نہیں آتا۔ ضرورت پڑنے پر ایک دم بھول جاتے ہیں کہ کون سا کاغذ کہاں محفوظ کیا تھا۔ہزار ڈھونڈنے پر بھی وہ نہیں ملتا۔
اور جب ضرورت ختم ہو جاتی ہے تب ہم دیکھتے ہیں کہ ’’غالب کے خطوط سے ‘‘ بجلی کا بل برآمد ہو رہا ہے،(جو اُن کا نہیں ہمارا ہوتا ہے)ماچس کی ڈبیہ سے بنک کی رسیدیں نکل رہی ہیں، جوتے کے اندر ٹیلی فون کا بل دبکا پڑا ہے۔ اور عید کی ٹوپی میں پرانے موزے نہایت محفوظ حالت میں دھلے دھلائے رکھے ہیں! اور یہ وہی عید کی نماز والی ٹوپی ہوتی ہے جوہمیں عید کے سوا ہر روزاپنی محفوظ جگہ رکھی ہوئی دکھائی دیتی رہتی ہے۔بس عید کے روز اسے پتہ نہیں کیا ہو جاتا ہے ۔ ایسے غائب ہو جاتی ہے جیسے خودبھی سلیمانی ٹوپی پہنے ہوئے ہو۔
کئی بار صبح کا اخبار پڑھتے پڑھتے جب ہم اونگھنے لگتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ ابھی ابھی اخبار پڑھ رہے تھے ۔چنانچہ دوبارہ جاگنے پر جب دوبارہ اخبار پڑھتے ہیں تو یہ دیکھ کر سخت حیرانی ہوتی ہے کہ دہلی میں اُسی جگہ پر اُسی وقت پھر ایک بم دھماکہ ہو گیا ہے جہاں کل ہوا تھا۔ اور عجیب تر بات یہ ہے کہ دھماکے سے وہ دو بے قصور راہ گیرپھر زخمی ہو گئے ہیں جو کل زخمی ہوئے تھے۔ہم سوچنے لگتے ہیں یہ کیسے بے قصور راہ گیر ہیں جو ہر دھماکے پر زخمی ہونے پہونچ جاتے ہیں۔ خاص طور سے نا معلوم راہ گیروں کی اس بات پر ہمیں سخت تعجب ہوتا ہے کہ حادثوں کی بو یہ لوگ کیسے سونگھ لیتے ہیں ۔کہیں بھی دیکھ لیجئے۔ حادثہ ابھی ہوانہیں اور یہ پہلے ہی جائے حادثہ پر موجود ہیں۔کسی نے بتایا کہ دراصل ان لوگوں کوایکس گریشیا کھانے کی عادت پڑی ہوئی ہے جس کا اعلان ہر حکومت ہلاک شدگان اور زخمیوں کے ضمن میں کرتی رہتی ہے۔ واقعی صاحب ۔ دنیا عجیب لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔
خیر۔ ذکر چل رہا تھا صبح کی اخبار بینی کا۔ یہ بُری خبریں پڑھنے کے بعدجب صفحہ پلٹتے ہیں توپتہ چلتا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ صاحبہ نے اس اسکول کا دوبارہ سنگِ بنیاد رکھ دیا ہے جس کا کل بھی رکھا تھا۔ پھر یہ سوچ کر کہ شائد محترمہ کی یادداشت بھی ہمارے جیسی ہے چناں چہ بھول سے دوبارہ سنگِ بنیاد رکھ دیا ہوگا ، صفحۂ آخر پر پہونچتے ہیں۔وہاں یہ جاں کاہ اطلاع ملتی ہے کہ پرانی دہلی میں محلہ کشن گنج کی معزز ہستی شیخ خلیل کا نوے برس کی عمر میں حرکتِ قلب بند ہو جانے سے ایک بار پھر انتقالِ پر ملال ہو گیا ہے۔تب ہمیں شبہ ساہونے لگتا ہے کہ یقیناً دال میں کچھ کالا ہے۔ ورنہ ایک ہی آدمی دو مرتبہ داعیِ اجل کو لبیک کیسے کہہ سکتا ہے۔اس کے لئے تو داعیِ اجل کو یقینی طور پر بہرا ہونا چاہئے کہ سنتا نہیں ہے بات مکرر کہے بغیر! بالآخر میز پر رکھا ہوا دودھ کا خالی گلاس دیکھ کر یاد آتا ہے کہ اوہو، یہ تو آج ہی کا اخبار ہے جسے پڑھتے پڑھتے ہم اونگھنے لگے تھے۔اور آج کی پڑھی ہوئی خبریں پڑھ کرانہیں خواہ مخواہ کل کی پڑھی ہوئی سمجھ رہے تھے۔سارا قصور ہماری اپنی ہی یادداشت کا نکل آتا ہے۔
یادداشت خراب ہونے کے کئی فائدے اور کئی نقصانات ہیں جن کا ذکر ہم پھر کسی مضمون میں کریں گے۔ بشرطیکہ یاد رہا۔فی الحال یہ سن لیجئے کہ ایک مرتبہ ہمیں صبح کے اخبار میں کچھ جانی پہچانی خبریں پڑھ کر شبہ ہوا کہ ہو نہ ہو ہم اونگھ چکے ہیں اور تھوڑی دیر پہلے پڑھی ہوئی خبروں کو بھول سے کل کی پڑھی ہوئی خبریں سمجھ رہے ہیں۔ مگر سامنے دیکھا تو دودھ کا گلاس بھرا ہوا رکھا تھا! آخر جب چھان بین کی تو پتہ چلا کہ وہ واقعی کل کی خبریں تھیں۔بلکہ کچھ تو پرسوں کی بھی تھیں۔ مثلاً کئی کالونیوں میں بجلی نہیں ہے۔ راشن میں گھٹیا چاول پایا گیا۔ لوکل بس سے ٹکرانے پر سائیکل سوار ہلاک ۔فلاں پارٹی کے لیڈر نے اپنے بیان کی تردید کر دی۔ اسمبلی میں ہنگامہ ۔ پارلیمنٹ سے واک آؤٹ۔ اس روز ہمیں اندازہ ہوا کہ اکیلے ہماری ہی یادداشت خراب نہیں۔ واقعات اور حالات کو بھی بھولنے کی بیماری ہے اور وہ اکثربھول سے خود کو دوہراتے رہتے ہیں۔