فرحت نواز(رحیم یار خان)
ہمسفری کا فرغل اوڑھے
جگر جگر کرتی امیدوں کے کنگروں پر
آسودہ سی منزل کو چھونے والی مخمل جیسی
پگڈنڈی کا موڑ
جہاں پہ
قسمت کے بَل کھاتے عصا نے
اک چشمے کو جنم دیا تھا
بے حد تنہا،افسردہ اور چُپ رستوں کا،
اور موئن جو ڈارو جیسے ان رستوں پر
چلنے والے جسموں کے تعویذ جہاں پر
میوزیم کے شو کیسوں کی رونق کہلائے
جہاں روپہلے خوابوں کا اندوختہ اپنا
تلخ حقیقت کے قزاق نے لُوٹا بڑھ کر
جہاں چمکتی دیواروں کے سینے سے لگ کر
بیتے دن روئے تھے،
جہاں پہ آسودہ لمحوں کی ہلکی ہلکی نرم سی دستک
پنڈولم کے تلخ جھکولوں میں بدلی تھی
وقت ابھی تک وہیں کھڑا ہے
ہم تیزی سے گزر رہے ہیں!