خاور اعجاز(ملتان)
کہانی !
ترے لفظ مِٹتے ہیں بنتے ہیں
ماضی ، گزرتے ہُوئے حال
اور آنے والے زمانوں کے قصّے سناتے ہیں
مجھ کو بتاتے ہیں
تخلیق کی پوٹلی
ایک ایٹم کی صورت بندھی تھی
کسی نے بہت دُور برقی بٹن کو دبایا
جھماکا ہُوا
اور اُس پوٹلی میں چھپی دھڑکنیں
اِک پُر اسرار خود کار قوّت سے چلنے لگیں
تیرگی کا خلاء
روشنی کے کھلونوں سے بھرنے لگا
عکس حیرت کا
بہتے ہُوئے پانیوں میں اُترنے لگا
خاک بکھری ہُوئی پھِر سمٹنے لگی
زندگی اپنے اپنے مداروں میں چلنے لگی
آگ جلنے لگی