حیدر قریشی
رہا نہ کام علامت یا استعارے کا
یہاں تو عشق ہے جیسے بجٹ خسارے کا
عجیب لہر سی دونوں کے من میں اُٹھی تھی
رہا نہ فرق سمندر کا اور کنارے کا
کبھی تھا ہجر میں بھی وصل کا مزہ لیکن
ہے وصل، ہجر زدہ آج ہجر مارے کا
تمہارے جوش بھی سب ٹھنڈے پڑ گئے پیارے
ہمارا پیار بھی بس رہ گیا گزارے کا
دُکھ آیتوں سے بھری اس کی ہر کہانی ہے
عجیب رنگ ہے اس دل کے ہر سپارے کا
گھِرا ہواہوں اندھیرے بھنور کے چکر میں
یقیں کیا تھا کسی ’’روشنی کے دھارے‘‘ کا
خدا پہ چھوڑ دو سارا معاملہ حیدرؔ
نتیجہ جو بھی نکل آئے استخارے کا