معید رشیدی(۲۴۔پرگنہ)
سر سے اُونچا پانی کیوں ہے
ہر منظر طوفانی کیوں ہے
ساحل والو کچھ تو سوچو
دریا میں طغیانی کیوں ہے
سچائی کی پوشاکوں میں
چھپ کر بے ایمانی کیوں ہے
اے سورج! تیرے مسکن پر
ظلمت کی سلطانی کیوں ہے
میری قسمت میں ہے آنسو
تجھ کو یوں حیرانی کیوں ہے
میرے دل کے مَے خانے میں
آج اتنی ویرانی کیوں ہے