نسرین نقاش(سری نگر)
پتھروں کے شہر میں بولتا نہیں کوئی
گنگ ہیں زبانیں کیوں؟،سوچتا نہیں کوئی
ہم میں زندہ رہنے کا عزم ہی نہیں ورنہ
موت کے سمندر میں ڈوبتا نہیں کوئی
شہر کی فضاؤں میں شور ہے قیامت کا
لوگ یہ سمجھتے ہیں سانحہ نہیں کوئی
دہشتوں کی بستی میں پاؤں تیز چلتے ہیں
اب تو گھر سے مرگھٹ تک،فاصلہ نہیں کوئی
خوش نما لباسوں پر سب کی نظریں جمتی ہیں
آنکھ کے دریچوں میں جھانکتا نہیں کوئی
خامشی کے خنجر سے لفظ لفظ زخمی ہے
خامشی کے خنجر کو توڑتا نہیں کوئی
تم جو توڑ سکتے ہو،توڑ کر نکل جاؤ
ظلم کے حصاروں میں راستہ نہیں کوئی