صادق باجوہ(امریکہ)
کب سے موہوم امیدوں کا صلہ رکھا ہے
تیری یادو ں کا بہت اونچا دیا رکھا ہے
سن کے مجبو ر تمنا کی سسکتی آہیں
لوریاں دے کے اسے دل نے سلا رکھا ہے
عمر گزری ہے مگر خود سے جدا کر نہ سکے
بھولنے و الے تری یاد میں کیا رکھا ہے
س
ا قیا ! مُہر بَلَب کر کے صِلہ کیا پایا
حشر کچھ اور خمو شی نے بپا رکھا ہے
جبر کے سامنے بھی سینہ سِپر ہو ہو کر
وِ ر ثۂِ ر فتہ کو تا بِندہ بنا ر کھا ہے
یاد بھی کر نہ سکے، بھول بھی پائے نہ جسے
اک و ہی عہد ، وہ پیما نِ وفا رکھا ہے
اس کی تعبیر بھلا کون کرے گا صاؔدق!
جاگتی آنکھوں نے جو خواب سجا رکھا ہے