عظیم انصاری(۲۴پرگنہ)
یقیں ہے آج وہ جاں سے گزرنے والا ہے
تمہاری مانگ جو تاروں سے بھرنے ولا ہے
جلا رہے ستم گر جہاں پہ گھی کے چراغ
وہیں سے آگ کا دریا گزرنے والا ہے
مجھے یقیں ہے شہادت حیات بخشے گی
تمہیں گماں ہے کہ وہ شخص مرنے والا ہے
بدل رہا ہے ابھی سے وہ اپنے لہجے کو
نشہ غرور کا شاید اترنے والا ہے
لہو میں جس کے شہادت کا نشہ شامل ہو
کہاں وہ رعب سے ظالم کے ڈرنے والا ہے
گھٹا کو دیکھ کے کامل یقیں ہے مجھکو
فضا کا رنگ نکھر کر بکھرنے والا ہے
کسی کے سامنے سراس کا خم نہیں ہوگا
عظیمؔ اپنے خدا سے جو ڈرنے والا ہے