خورشید اقبال(۲۴پرگنہ)
موت کے خوف سے ہر آنکھ ہے پتھرائی ہوئی
منصفِ شہر کی قاتل سے شناسائی ہوئی
دوست دشمن کے مکاں اس کے لئے ایک سے ہیں
کیا پتہ آگ کو وہ کس کی ہے سلگائی ہوئی
گرپڑا خود ہی غلط پاؤں جو رکھا اس نے
آخرش مورد الزام مگر کائی ہوئی
موت رقصاں رہی سڑکوں پہ گلی کوچوں میں
زندگی بھاگتی پھرتی رہی گھبرائی ہوئی
اس نے ہر شخص کو دنیا میں دغا ہی دی ہے
زندگی دوست بھلا کس کی مرے بھائی ہوئی
جو نہ پگھلا سکے لفظوں سے جگر پتھر کا
شاعری وہ کہاں بس قافیہ پیمائی ہوئی
تو ابھی خود کو سخنور نہ سمجھ لے خورشیدؔ
مانا دنیا ترے اشعار کی شیدائی ہوئی