حسن عباس رضا(نیو یارک)
ہم علامت تھے کبھی بحر میں طغیانی کی
اب ہیں تصویر فقط بے سر و سامانی کی
ہم نے کچھ خواب ، کچھ اندیشے یہاں بوئے تھے
اور اب چاروں طرف فصل ہے حیرانی کی
قریہء دل ، جہاں دریائے تمنّا تھا رواں
اب وہ اک دشت ہے ، اور بوند نہیں پانی کی
اُس نے اک بار کہا تھا کہ چلو مر جائیں
میں ہی بزدل تھا ، کہ مانی نہیں مرجانی کی
وہ تو ضدی تھی ، کسی آمرِ مطلق کی طرح
اور کم بخت نے مرنے میں بھی من مانی کی
اب تو خود سے بھی ملاقات نہیں کرپاتے
ایسی حالت کہاں ہوگی کسی زندانی کی
خود کو گر بیچ بھی آتے تو ہمیں ملتا کیا؟
بات عزت کی نہیں ، بات ہے ارزانی کی
اُس کو سوداؔ کی طرح دیکھا ہے جن حالوں میں
بات وہ کہہ دوں ، مگر بات ہے عریانی کی
اب خرابہ ہے یہ دل ، پھول کبھی کھِلتے تھے
ہم نے خود ہی نہ حسنؔ اپنی نگہبانی کی