تاجدار عادل
اگر حرفِ دعا بھی ہم نے چھوڑا
تو کیا اپنا خدا بھی ہم نے چھوڑا
کسی سے واسطہ بھی ہم نے چھوڑا
پھر اپنا قافلہ بھی ہم نے چھوڑا
بچھڑنے کی اسی نے بات کی تھی
اُسی پر فیصلہ بھی ہم نے چھوڑا
کسی کی یاد بھی اک رابطہ ہے
مگر یہ رابطہ بھی ہم نے چھوڑا
ادا لفظِ محبت کب کیا ہے
زباں پر آبلہ بھی ہم نے چھو ڑا
ہمیں بھٹکے اندھیرے راستے میں
دیا جلتا ہوا بھی ہم نے چھو ڑا
کوئی کوچہ ہماری زندگی تھا
مگر وہ راستہ بھی ہم نے چھوڑا