مظفر حنفی
اک آبشار تھا ،مجھ کو بہانے والا تھا
میں گردباد اُسے سر چڑھانے والا تھا
جنہوں نے آگ لگائی وہ مہرباں تھے مِرے
میں اس خرابے کو خود ہی جلانے والا تھا
خبر ہے آج وہاں زندہ گڑ گیا کوئی
دکان اپنی جہاں میں لگانے والا تھا
اُسی کو باندھ کے پھینک آئے لوگ دریا میں
وہی تو شہر میں کشتی بنانے والا تھا
ترے دیار کی رونق سے کیا بہلتا جی
وہاں تو جو بھی ملا،دل دُکھانے والا تھا
پھر اُس کو یاد کیااور میں نے موند لی آنکھ
کہ اُس کے بعد نظر کون آنے والا تھا
مجھے بکھرنا نہیں آیا پھول کی مانند
بس ایک کانٹا تھا اور ٹوٹ جانے والا تھا