مظفر حنفی(دہلی)
وہ ہٹتے تھے کنارے سے،نہ دریا پار کرتے تھے
مگر ہر بلبلے،ہر موج سے تکرار کرتے تھے
نہ جانے کیوں،مِرا گھر جَل رہا ہے اور وہ خوش ہیں
یہی ہمسائے کل تک مجھ سے بے حد پیار کرتے تھے
دلوں میں چور ساتھا کچھ کہ آدم خور سا تھا کچھ
نہ وہ اظہار کرتے تھے،نہ ہم اظہار کرتے تھے
جھلستی ریت میں زندہ گڑے ہو،کیا ہوا تم کو
تمہارے ہاتھ پر بیعت کبھی منجدھار کرتے تھے
ہماری راہ میں دیوار کی مانند حائل ہیں
وہ جن کے واسطے ہم راستے ہموار کرتے تھے
گھنے چھتنار پیڑوں کے لئے مشہور جنگل میں
ذرا سی بات پر پتے بہت پیکار کرتے تھے
مظفرؔ کیا ہوئے وہ لوگ،دنیا اُن کے دَم سے تھی
جنہیں حاصل نہ تھی قدرت مگر ایثار کرتے تھے