صفیہ عباد (اسلام آباد)
رشید امجد کی ابتدائی دور کی کہانیوں میں موضوعات چونکہ ٹھوس ہیں۔زندگی کے اصل حقائق کو موضوع بنا یا گیا ہے۔ اس لئے اسلوب میں بیانیہ انداز دکھائی دیتا ہے ۔ زندگی، جس کا ڈھانچہ سیاسی، تمدنی، معاشرتی، معاشی، مذہبی و اخلاقی قدروں سے تشکیل پاتا ہے۔ اس زندگی کا ہر زاویہ اسلوب کی رنگا رنگ جہتوں کے ساتھ نمایاں ہے۔ کہیں سیاسی بے اعتدالیاں ہیں، کہیں معاشرتی ناہمواریاں، کہیں اخلاقی زوال کی بات ہے اور کہیں معاشی تنگ دستی اور پریشان حالی اپنی جھلک دکھاتی ہے۔ ہر جگہ اسلوب میں موضوعات کی ایک نئی دنیا اور موضوع کے حوالے سے اسلوب میں جدت نظر آتی ہے۔ ایک فکری لہر بھی غیر محسوساتی طور پر اس بیانیہ انداز کے ساتھ وابستہ ہے۔ جو شاعرانہ آہنگ کے ساتھ بیانیہ کو چھوتی ہوئی گزر جاتی ہے۔
’’وہ بدبودار گلی، وہ سیلن میں بھیگا ہوا کمرہ، وہ میلا بستر اور ہوٹل کی وہ پرانی میز، جس میں میلی پلیٹو ں میں کھانا کھاتے ہوئے اس نے عمر کے کئی تھان وقت کی چرخی پر لپیٹ دیئے تھے۔‘‘(۱)
بقول ڈاکٹر مجید مضمر:
’’ان کے یہاں جو شعری فضاملتی ہے ۔وہ بیانیہ کو زیادہ تخلیقی ، زیادہ توانا اور زیادہ پُرا سرار بنا دیتی ہے۔‘‘(۲)
اور بعض اوقات بیانیہ بغیر شعری فضا کے براہِ راست اور زیادہ موثر ہو جاتاہے۔ یہاں رشید امجد کا معاشرہ، اس کے مخصوص رویے بہت نمایاں اور ابھر کر سامنے آتے ہیں۔رشید امجد کے بیانیہ انداز میں نہ صرف معاشرتی زندگی کی حقیقی تصویریں ملتی ہیں بلکہ اسلوب میں روانی اور وضاحت کا عنصر بہت نمایاں ہو جاتا ہے۔ اپنے عہد کے منفی رویوں پر طنز و تنقید کا رنگ بھی ابھرنے لگتاہے۔
’’ہاں یہاں تو ہاتھ کھڑا کرنا، اور ہاتھ کھڑے کروانا ایک کاروبار بن چکا ہے۔ اور کاروبار کے لئے کھنکتے اور چمکتے سونے کی ضرورت ہے اور یہ کھنکتا، چمکتا سونا ان کے پاس نہیں، جو سچ کی تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ ‘‘(۳)
’’پھر اس نے باقی تینوں کی طرف دیکھا۔ یہ ہمارا دشمن اور زمین کا غدار ہے۔ ہمیں اس کا ساتھ چھوڑ دینا چاہیے۔‘‘(۴)
’’وہ جھنجلا جاتی ہے۔’’تمہارے Statusکی بات ہے ۔ تمہارے پاس نہ کار ہے نہ کوٹھی‘‘۔(۵)
’’ہر بات کے درست ہونے کا جواز اس میں ہے کہ تم اسے درست سمجھتے ہو۔‘‘(۶)
’’اسے یا د آیا ۔ چپڑاسی نے کل اسے بتایا تھا۔ ’’جناب!اسّی روپے کا تو خالی آٹا بھی نہیں آتا۔ ‘‘(۷)
یہاں نہ صرف موضوعات عام، حقیقی اور روز مرہ زندگی سے لیے گئے ہیں بلکہ زبان و بیان، الفاظ کی نشست و برخاست بھی عام قاری کی ذہنی سطح کے مطابق ہے۔ کردار اپنی ذہنی اپروچ کے مطابق سوچتا اور بات کرتا نظرآتا ہے۔
ابتدائی افسانوں میں زندگی کے اصل حقائق کی عکاسی میں چونکہ بیانیہ انداز ہے ۔ اس لئے تشبیہہ اور استعارہ میں بھی زندگی کے ٹھوس اور خارجی حوالے ابھرتے ہیں۔
’’شروع شروع میں جب اس کے وجود کے شہر میں لفظوں اور خیالوں کی ٹریفک یوں منجمد ہوتی تو اسے اپنا آپ اس سڑک کی طرح لگتا ۔ جسے مختلف محکموں نے جگہ جگہ سے کھود دیا ہو۔‘‘(۸)
’’مَیں نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔ سانولا رنگ اور موٹے بھدے نقوش ، خدا جانے ابا جی کو اس کی کون سی ادا بھا گئی تھی۔ ابا جی تو اس کے سامنے یوں لگتے تھے جیسے کوئلوں کے ڈھیر پر نئی نکور اٹھنی پڑی ہو۔‘‘(۹)
ساٹھ سے ستّر کی دہائی میں جو افسانے لکھے گئے۔ ان میں تشبیہہ، استعارہ کی مماثلتیں تمام کی تمام خارج سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہاں اسلوب سے صاف واضح ہوتا ہے کہ افسانہ نگار کے یہاں شعور، تحت الشعور، لا شعور اور ماوراء کے دَرا بھی وا نہیں ہوئے۔
’’رنگ تو اس کا سانولا تھا لیکن دیہات کی کھلی فضا اور سبز ہوا کی خوشبو اس کے انگ انگ سے پھوٹی پڑتی تھی۔ وہ مجھے اس ساز کی طرح لگتی تھی جو موسیقار کے انتظار سے تھک کر خود بخود بجنے لگے۔‘‘(۱۰)
اس دور میں تشبیہہ، استعارہ خارج کے ٹھوس حقائق اور داخلی محسوسات کے ساتھ بھی وابستہ ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب فرد کی مخصوص داخلی کیفیات کا ذکر بھی مقصود ہو۔ یہاں ایک محسوساتی لہر بھی ابھرتی ہے۔
’’نذیر شیخ کا چہرہ اس گداگر کی طرح اتر گیا، جسے سوال کرتے ہی جواب کا اندازہ ہو گیا ہو۔سلیم نے اس کے چہرے پر منڈلاتی اداسی کی تحریر پڑھ لی۔‘‘(۱۱)
’’وہ اس بیج کی طرح مر گیا۔ جو کسان کا ہاتھ ہل جانے سے زمین کی بجائے پگڈنڈی پر گِر گیا ہو۔‘‘(۱۲)
’’اپنی نگی کے نام پر چاچا کی اور میری حالت ایک ساتھ بدلی۔جیسے گرم گرم سہاگہ پر کسی نے پانی کے چھینٹے مار دیے ہوں۔‘‘(۱۳)
’’چا چا کے چہرے پر یوں رونق آئی جیسے کئی دن کے باسی مالٹے پر سرخی کا انجکشن لگا دیا گیا ہو۔‘‘(۱۴)
’مجھے دیکھتے ہی اس کا رنگ اس کپڑے کی طرح ہو گیا۔ جو رنگ کاٹ کی کڑاہی میں گر پڑا ہو ۔‘‘(۱۵)
یہ استعاراتی اور تشبیہاتی انداز اس حقیقت کا بھی عکاس ہے کہ افسانہ نگار کی قوتِ مشاہدہ عمیق اور محسوساتی سطح پر بڑی توانا اور متحرک ہے۔ اس محسوساتی اور مشاہداتی نگاہ میں خارجی جبر اور اس کے تلخ حقائق رفتہ رفتہ سمٹ رہے ہیں۔
’’ساری چیزیں کھسک کر اسی ایک آخری لمحہ پر اٹکی ہوئی ہیں۔ گلے سڑے چہرے ، موٹی ہوتی بلی اور چربی چڑھا چوہا، سب اسی ایک لمحہ پر اٹکے ہوئے ہیں ۔ بس ایک لمحہ، صرف ایک لمحہ ……‘‘(۱۶)
اس افسانے ’’جاتے لمحے کی آواز‘‘ میں ننگی تلوار والا جلاد اور بلی کے ساتھ ساتھ چربی چڑھا چوہا۔ سب کی سب سیاسی علامتیں اور خارجی انتشار کے حوالے ہیں۔ان کے ہاں استعاروں میں بعض اوقات محسوسات کی ایک سطح کے بعد دوسری کا ادراک ہوتا ہے۔یہاں استعاراتی سطح میں فکری گہرائی کا عنصر نمایاں ہونے لگتا ہے۔
’’میں ہاتھ چھڑا کر بھا گ آتا ہوں اور پلنگ پر بیٹھ کر ہانپنے لگتاہوں۔ اس پلنگ کے سرہانے الماری ہے جس کی تین آنکھیں ہیں۔ سب سے پچھلی آنکھ میں کتابیں ہیں جن کی جلدیں اُلٹی ہیں۔دوسری آنکھ ویران ہے ۔ اس میں بوسیدہ سے فریم میں قید کسی شخص کی تصویر ہے۔ یہ شخص اداس،ملول اور غم زدہ ہے۔‘‘(۱۷)
یہاں الماری کے خانے کے لئے ’’آنکھ‘‘ کا استعارہ استعمال ہوا ہے۔استعارے کی پہلی سطح آنکھ کی بینائی کا تصور پیدا کرتی ہے جب کہ خانہ ’’ کھوکھلا‘‘ ہے ۔ یہ ادراک قاری کو دوسرے درجے پر مِلا ۔ یہ اس کا کھوکھلا پن دراصل پوری کیفیت کی مجموعی ٹوٹ پھوٹ کا مظہر ہے۔ اسی کے حوالے سے ’’پچھلی آنکھ میں کتابیں‘‘ ایک اور فکری جہت کی غماز ہیں۔
امیجری رشید امجد کے اسلوب کی نمایاں ترین پہچان اورا سے جدا گانہ تشخص بھی عطاکرتی ہے ۔سعادت سعید اس ضمن میں لکھتے ہیں:
"In impressionistic and imagistic styles, he has travelled rthough a mysterious city in which he sees broken walls, paper ramparts, the whirlpool of voices, faceless men, rain without water, the knock of a lost voice ......... a beam in a frozen scene, a photo becoming hazy in
an open eye and distored images and contorted figures." (18)
’’باہر ساری سڑک رنگ برنگی خوشبوؤں اور خوش صورت قہقہوں کے ساتھ جاگ رہی تھی۔‘‘(۱۹)
یہاں رات ایک مجسم پیکر کے ساتھ نہ صرف موجود ہے بلکہ:
’’دیواریں بھی میرے ساتھ چل پڑیں۔ میں بھاگنے لگا۔دیواریں میرے ساتھ بھاگنے لگیں۔ میں چیخنے لگا۔ دیواریں بھی میرے ساتھ چیخ پڑیں۔ میں رُک گیا۔ دیواریں بھی میرے ساتھ رُک گئیں۔۔‘‘(۲۰)
رشید امجد کی پیکر تراشی کا ایک حوالہ موجود سے ناموجود اور دوسرا ناموجود سے موجود کی جانب ہے۔ پیکر تراشی کے عمل میں رشید امجد محسوسات، اشیاء اور تشبیہہ سازی کو اکائی کے درجے پر لا کر تخلیقی عمل سے گزرتے ہیں۔ ان کا یہ طریقہ کار ایک طرف ادراکی سطح کو رواں کرتا ہے اور دوسری طرف ایک طلسماتی فضا قائم ہو جاتی ہے۔جو اسلوب کے بیانیہ کو بھی فکری گہرائی عطا کرتی ہے۔ یہاں اسلوب کی محض جمالیاتی سطح ہی قاری کو اپنے سحر میں مبتلا نہیں کرتی بلکہ محسوسات کی نئی نئی سمتیں بھی ظہور پانے لگتی ہیں۔ ڈاکٹر مضمر لکھتے ہیں:
’’پہلی سطح وہ، جہاں کیفیات و احساسات یا جذبوں میں شدت بھر دیتے ہیں۔۔۔دوسری سطح وہ جہاں ان سے کسی شے کو جوڑتے ہیں۔۔۔ تیسری سطح ایسے پیکروں کی ہے جہاں وہ مختلف ٹھوس اشیاء میں حساسیت بھر دیتے ہیں۔۔۔۔چوتھی سطح ایسی اشیاء یا ایسے اعمال کی ہے جو ٹھوس صورت میں نظر نہیں آتے۔ مثلاً نیند، تھکن، تنہائی ، ٹکٹکی وغیرہ۔ رشیدا مجد ان کو بھی ٹھوس اشیاء کے ساتھ جوڑ کران کے عمل کو شدید بنا دیتے ہیں۔‘‘(۲۱)
اسی حوالے سے ان کے یہاں ایک اور صورتِ حال بھی موجود ہے کہ بعض اوقات پیکر تراشی سے پہلے ماحول، کیفیت، تاثر اور عمل کے تحرک سے قاری کے ذہن کے ساتھ ایک داخلی اور غیر محسوساتی سا تعلق قائم کر لیتے ہیں۔یہ عمل تسلسل کے ساتھ آغاز پاتا آگے بڑھتا ہے۔ اس عمل کے حوالے سے داخلی محسوسات کو جس لمحہ تحریک ملتی ہے۔ان محسوسات کی عملی شکل کاوہیں پر جواز پیدا ہوتا ہے اور نتیجہ کی برآمدگی بھی ساتھ ہو جاتی ہے اور یہ نتیجہ داخلی اورخارجی اکائی سے تشکیل پاتا ہے۔
’’دفعتاً اس نے برش اٹھایا اور تصویر پر سیاہ رنگ پھیر دیا اور مسلسل پھیرتی رہی۔ چند لمحوں میں ساری تصویر سیاہی کے تالاب میں ڈوب گئی اور عین اس وقت مجھے ایک اور تصویر نظر آ گئی۔یہ تصویر اس کی اپنی تھی جس کے ماتھے پر رنگ کا سانپ کنڈل مارے بیٹھا تھا۔ میں چپ چاپ سانپ کو دیکھتا رہا۔ کینوس کی تصویر سیاہ رنگ میں ڈوب چکی تھی لیکن وہ اس پر ابھی تک برش پھیرتی جا رہی تھی۔ میں نے اس کی نظر بچا کر اس کے ماتھے پر بیٹھے ہوئے سانپ کو ہٹانے کی کوشش کی۔ میری انگلی لگتے ہی سانپ پھنکار کر سیدھا ہو گیا او ر شُوکتے ہوئے میری طرف دیکھنے لگا۔ وہ ایک لخت میری جانب مُڑی اور برش میرے منہ پر دے مارا۔‘‘(۲۲)
یہ طریقہ کار افسانہ ’’جلاوطن‘‘ اور’’ بیزارآدم کے بیٹے‘‘ میں بھی موجود ہے۔
یوں تو رشید امجد کے یہاں تشبیہہ ، استعارہ کے استعمال میں قاری کی کسی نہ کسی حس کو تحریک ضرور ملتی ہے ۔بصیرت ، بصارت، ذائقہ، لامسہ اور شامہ وغیرہ لیکن اکثر مقامات پر ان میں سے زیادہ تر کی اکائی اور یکجائی بیک وقت موجود ہوتی ہے۔مثلاً:
’’بھیڑ یا قطار میں سے نکل کر سڑک پر آگیا اور درمیان میں پہنچ کر سونگھنے لگا۔ خون کی لکیر سڑک کے بیچوں بیچ دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ بھیڑیے نے جھک کر خون کو چاٹا۔ ایک لمحہ زبان پر اس کے ذائقے کو محسوس کیا۔ پھر زبان ہونٹوں پر پھیری۔‘‘(۲۳)
’’ہابیل اور قابیل کے درمیان طویل مکالمہ‘‘ میں اس کی عکاسی اس طرح ہوئی ہے:
’’نہیں وہ میرے اندر نہیں اور وہ ہابیل کے اندر بھی نہیں تھا۔ تو پھر وہ کہاں ہے۔ وہ چاروں طرف دیکھتاہے ۔چھوتا ہے، چکھتا ہے،سنتا ہے ، سونگھتا ہے۔ اب وہ کسی کے اندر نہیں گھستا، بلکہ باہر رہ کر جالے بُنتا اور ناموں کو دیمک بن کر چاٹتا ہے۔‘‘(۲۴)
اور کبھی کوئی حِس پورے فقرے کے اندر نئے مفاہیم او رمعنی کی جدت بھر دیتی ہے۔
’’آنے والے میرے لہو کی خوشبوسونگھیں گے۔‘‘(۲۵)
’’میں نے تمہارے قدموں کی چاپ سُنی ہے۔(۲۶)
’’میں نے جھک کر اس کے پاؤں چھوئے، اس کا انگ انگ مہک اٹھا۔‘‘(۲۷)
’’وہ ممنوع پھل کے ذائقہ کو بدن پر محسوس کرتا ہے۔‘‘(۲۸)
اسی ضمن میں ڈاکٹر نوازش علی لکھتے ہیں:
’’وہ ایک حِس کی خاصیت کو دوسری حِس کی خاصیت پر منطبق بھی کرتے ہیں۔ یا مختلف حواسوں کی یکجائی سے کوئی ترکیب خلق کی گئی ہے۔‘‘(۲۹)
مجموعہ’’ریت پر گرفت ‘‘میں تشبیہاتی اور استعاراتی انداز میں علامتیں بھر پور طریقے سے اپنے عہد کی نمائندہ بن کر ابھرتی ہیں۔ پیکر تراشی، تجسیم کاری اُس دور کے افسانوں میں بہت نمایاں اور وافر نظر آتی ہے۔اس حوالے سے پیکر تراشی کی داخلی اور خارجی دونوں سطحیں متحرک ہیں۔’’ریت پر گرفت‘‘ کے تمام افسانوں میں امیجز کا استعمال کثرت سے ہوا ہے۔
’’لڑکی کی آنکھوں میں شناسائی کا چرخہ چل رہا تھا۔اس کی گھوں گھوں سن کر وہ پرانے سویٹر کی طرح ادھڑ نے لگا۔‘‘(۳۰)
’’کل میں سارا دن اپنی کھڑکی سے لٹک کر پڑوس کے صحن سے رنگ چننے کی کوشش کرتا رہالیکن رنگ میری پلکوں سے چھوتے ہی اپنی خوشبو چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔ اسے قتل کر دو ورنہ میرے سارے جسم پر چہرے اُگ آئیں گے۔رات چنگھاڑتی ہوئی ہم پرٹوٹ پڑی تھی۔‘‘(۳۲)
’’ہوا اس کے لہو کے رنگ کو ہاتھوں میں اٹھائے میرے چاروں طرف ناچ رہی تھی۔ میں نے فرش پر رینگتی چیخوں کو دونوں ہاتھوں کے کٹوروں میں بھرا اور پھر ایک ہی لمحہ میں انہیں اپنے منہ میں انڈیل لیا۔‘‘(۳۳)
یہاں تشبیہہ، استعارہ، شدتِجذبات اور داخل و خارج کی محسوساتی و مشاہداتی سطحیں پوری متحرک نظر آتی ہیں۔ بھیانک اور شدید منظر کی تخلیق میں یہ تمام عوامل تخلیقی پروسس کی بھٹی میں مزید کندن بن کر نکلتے ہیں۔ علامتوں کے نئے سلسلے ابھرنے لگتے ہیں۔ ٹھوس اور بے جان وجود کے حوالے جب حقائق کی تلخی کو پیکر دیتے ہیں تو شدتِ احساس اپنے لئے تشبیہہ اور استعارے کا انتخاب اسی تناسب سے کرتی ہے۔ اکثر افسانوں کے عنوان ہی خود امیجری کی مثالیں ہیں۔مثلاً ’’تیز دھوپ میں مسلسل رقص‘‘،’’منجمد اندھیرے میں روشنی کی دراڑ‘‘ اور ’’پھسلتی ڈھلوان پر نروان کا ایک لمحہ‘‘ وغیرہ۔
’’میرے چاروں طرف چیخوں کا سمندر ہے۔ زمین کانپ رہی ہے۔ مکان او ر گلیاں ایک دوسرے کے گلے مل رہی ہیں۔ میرے وجود پر گرم گرم لہو کے چھینٹے پھیل رہے ہیں۔۔۔ میرے قدموں میں دم توڑتا شہر چیخ رہا ہے۔‘‘(۳۳)
اور کبھی مجرد کیفیت رہتی تلخ ہی ہے لیکن لفظوں کی نفاست میں ملائمت کے ساتھ گھلنے لگتی ہے۔
’’رات دھیرے دھیرے شام کی پیالی میں گھل رہی ہے اور میں چسکی چسکی اس کی سیاہی اپنے اندر اتار رہا ہوں۔‘‘(۳۴)
اور کبھی اسلوب میں ان دونوں کیفیات کا امتزاج پیدا ہونے لگتا ہے۔
’’گرم ریت پر چلتے ننگے پاؤں کے چھالے پھوٹ جاتے ہیں۔ پہاڑ کاٹنے کی آواز تیز ہو جاتی ہے اور ونجلی کی مدھر دھن میرے چاروں طرف بکھر جاتی ہے۔‘‘(۳۵)
ان کی تشبیہات اور استعارات لفظوں کے صوتی آہنگ کے بھی امین نظر آتے ہیں۔ الفاظ اپنے وجود میں اپنے مزاج کا خود پتہ دیتے ہیں۔
’’آنکھوں میں بے یقینی کے تھان کو لپیٹنا‘‘، ’’آنکھوں کے کٹوروں میں بے یقینی کا گھُلنا‘‘، ’’مٹھاس کی بانسری‘‘،’’پرکھوں کی روایتوں کے جالے‘‘، ’’بدن پر پڑی ہوئی سلوٹیں‘‘، ’’روشنیوں کا جسم پر استری کرنا‘‘ وغیرہ(۳۶)
اور کبھی وہ سکوت اور حرکت کی امتزاجی کیفیت سے ایک نئی فکری فضا کو جنم دیتے ہیں۔
’’ندی کا پانی گنگناتے ہوئے خاموشی سے چلا جا رہاتھا۔‘‘(۳۷)
اور کبھی لفظ، پیکر ، کیفیت، سب کے سب متحرک نظر آتے ہیں۔ ایک حرکی فضا کی تخلیق ہونے لگتی ہے۔
’’یادیں اپنے پاؤں میں گھنگھرو باندھ کر چلتی ہیں اور میرے وجود کے اجڑے کھنڈر میں چھن، چھنا چھن ناچنے لگتی ہیں۔‘‘(۳۸)
رشید امجد کی پیکر تراشی اکثر متصادم کیفیات سے جنم لیتی ہے۔ ٹھوس، جاندار، بے جان، موجود، ناموجود، ہر کیفیت تجسیم کاری کے کارخانے سے گویا روح، احساس اور زندگی لے کر ظہور پاتی ہے۔ ایسے مواقع پر ان کی نگاہ سائنٹفِک تجزیے سے بھی گزرتی ہے۔ وہ ایسے میں ارتقاء پذیری کو نظامِ کائنات کی بنیاد تصور کر رہے ہوتے ہیں۔
’’وہ صفحہ پلٹنے سے پہلے گہرے رنگ کا چشمہ اتار لیتا ہے اور سر اٹھا کر تیز بخار میں جلتے ہذیان بکتے سورج کو دیکھتا ہے۔ سورج اپنی ہتھیلیوں پر الاؤ جلائے پورے آسمان پر ناچ رہا ہے۔ تھتھا تھیا تھیا۔۔۔تھتھا تھیا تھیا۔۔۔‘‘(۳۹)
رشیدامجد کی بعض تشبیہیں ان کے یہاں بالکل نئی اور انوکھی نظر آتی ہیں۔
’’اندھیراا وباش لڑکوں کی طرح سیٹیاں بجاتا،شرماتی شام کے پیچھے لگا ہوا ہے۔‘‘(۴۰)
’’بارش ان کے بدن پر دریاؤں کی طرح بہہ رہی ہے۔‘‘(۴۱)
’’شعلہ چمکتا ہے تو سڑک دور دور تک روشن ہو جاتی ہے لیکن دوسرے لمحے بتاشے کی طرح اندھیرے میں بیٹھ جاتی ہے۔‘‘(۴۲)
’’گہرا اندھیرا ، گاڑھا، تارکول کی طرح چیزوں کے منہ پر بہہ رہا ہے۔‘‘(۴۳)
بعض اوقات ان کے استعارے قاری کے ذہن میں مضحکہ خیزی کی صورتِ حال بھی پیدا کرتے ہیں لیکن اس کا تناسب بہت کم بلکہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ مثلاً
’’لڑکی آنکھوں کی پلیٹ میں لذت کے رَس گُلے سجائے اسے دیکھ رہی تھی۔‘‘(۴۴)
اسی طرح بعض مماثلتی سلسلوں میں بے لطفی کا عنصر بھی جنم لے لیتا ہے۔مثلاً
’’وہ مڑ کر دیکھتی ہے ۔ شاید آپ مجھ سے کچھ کہہ رہے ہیں۔ افسوس میں سن نہیں سکتی۔میرے کان مرمت ہونے کے لئے گئے ہوئے ہیں۔ شام کو ملیں گے۔‘‘(۴۵)
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ رشیدامجد کے یہاں یہ انداز بہت کم ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ انسان، انسان نہیں لگتا بلکہ مشین کا ایک پرزہ ہے جو کانوں کی مرمت پر انحصار کرتا ہے لیکن یہ بھی دیکھنا ہے کہ یہ فرد، جس ٹوٹ پھوٹ کے معاشرے میں سانس لے رہا ہے جس بے توقیری کی بھینٹ چڑھا ہے ۔کیا اس کے اند ر کوئی شے سلامت بچی ہے؟ دوم یہ کہ کیا خبر، آنے والا کل اس ٹوٹے پھوٹے انسان کی شخصیت اور اس کی شناخت کا پہلو کیا سے کیا کر دے؟ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ تمام عوامل اس مضحکہ خیزی کے ساتھ وابستہ ضرور ہیں لیکن قاری کی سوچ کے کینوس کو وسیع بھی کرتے ہیں۔
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ رشیدامجد کے موضوعات حقیقت سے تجرید اور تجرید سے پھر حقیقی سمت کو لوٹتے ہیں۔ تو یہ ردوبدل ان کے اسلوب میں بھی واضح نظر آتا ہے۔ اس حوالے سے ان کی تشبیہوں میں ہیئت کا ٹھوس تصور ملتا ہے۔
’’۔۔۔لمحہ بھر کے لئے جسم میں ہلکی سی حرارت ہوئی لیکن فالج زدہ جسم مٹی کے ڈھیر کی طرح اسی طرح پڑا رہا۔‘‘(۴۶)
اور کبھی وہ انسان کی داخلی کیفیات کو اشیاء کے خارجی وجود سے موازنہ کرکے تشبیہاتی رنگوں کو زبان دیتے ہیں۔
’’لمبی سڑک ، بظاہر پُر جوش لیکن اندر سے ویران سڑک اس کی طرح تنہا۔یہی ان کی قدرِ مشترک تھی۔‘‘(۴۷)
رشید امجد کی تشبیہوں، استعاروں اور علامتوں کی ایک امتیازی خوبی یہ ہے کہ داخل اور خارج کے حوالے سے جوں جوں تجربات، محسوسات اور حقائق میں ردو بدل ہوتا ہے اسی حوالے سے نئی علامتوں کے سلسلے از خود ابھرنے لگتے ہیں جو بالکل نئے، انوکھے اور خود رشید امجد کے یہاں جدت کا رنگ بھر دیتے ہیں۔ ’’بے خوشبو عکس‘‘میں بھیڑ اور گیدڑ کی کئی علامتیں ہیں۔ اجتماعی صورتِ حال ۔۔۔جس نے خارج کی ہر سختی اور بے اعتدالی کو اپنے اندر جذب کر لیا ۔
’’ہر طرف ایک خاموشی تھی۔ بھیڑیں اور گیدڑ سر جھکائے اپنے روز کے کاموں میں مصروف تھے۔۔۔ اونچے مکانوں ، سجے ریستورانوں اور پُر ہجوم دفاتر میں ہر طرف بھیڑیں ہی بھیڑیں اور گیدڑ ہی گیدڑ تھے۔‘‘(۴۸)
اس افسانے میں ’’بلا‘‘سیاسی جبر اور چیرہ دستی کا استعارہ ہے۔
’’شہر والوں کے وجود میں پتھر اُگنا شروع ہو گئے ہیں۔ پہلے پاؤں کا انگوٹھا پتھر بنا پھر آہستہ آہستہ سارے وجود میں پھیلنے لگا۔‘‘(۴۹)
یہاں اجتماعی’’بے حسی‘‘اور پتھر اُگنے کے عمل کو بھی اسلوب بیان سے ایک ارتقائی کیفیت سے واضح کیا گیا ہے جو رفتہ رفتہ انتہا پر پہنچتی ہے۔
یہاں کیفیت اور موضوع کے مطابق استعاراتی جہتیں بھی بدلتی ہیں۔ کبھی شیر گیدڑ بنتے ہیں اور کبھی گیدڑ شیر بن جاتے ہیں۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب وجود کے اندر محسوسات میں تبدیلی آتی ہے۔شیروں کو بزدل دکھاتے ہوئے ان کے لئے’’گیدڑ‘‘ کا استعارہ استعمال ہوا ہے اور گیدڑوں کو دلیر دکھاتے ہوئے انہیں شیر کہا گیا ہے۔قمر جمیل خصوصیت کے ساتھ ا کہانی کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’۔۔اس علامتی کہانی میں دیکھئے ہمارا معاشرہ غائب ہے۔ یہاں تو لوگ نہ شیر سے متاثر ہوتے ہیں۔ نہ گیدڑ سے، البتہ یہ پتہ نہیں چلتا کہ کون شیر ہے ، کون گیدڑ ہے اور اگر گیدڑ ہے تو کب شیر بن جائے گا؟۔۔۔۔‘‘(۵۰)
اور رشید امجد کی فنی مہارت کا حُسن یہی ہے کہ اس حوالے سے قاری کے سامنے سوچ کے کئی زاویے ابھرنے لگتے ہیں۔ اس کی سوچ کا ایک اپنا تخلیقی عمل ابھرنے لگتا ہے۔یہیں سے انفرادی اور اجتماعی سوچ ماحول کی نا ہمواریوں پر مرکوز ہوجاتی ہے۔نئے نئے پیکر اپنی اپنی شبیہیں قاری کے ذہن پر مرتب کرتے چلے جاتے ہیں۔مجید مضمر اس ضمن میں لکھتے ہیں:
’’رشید امجد کے افسانوں میں انفرادیت کا پہلو سب سے زیادہ پیکر تراشی کے عمل ہی سے ابھرتا ہے۔۔۔‘‘(۵۱)
اس پیکر تراشی کا ایک سِرا درحقیقت افسانہ نگار کی تخلیقی سطح سے بندھا ہوا ہوتا ہے اور دوسرا سِرا وہ قاری کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں۔جسے وہ اپنی ذہنی اپج کے مطابق بروئے کار لاتا ہے۔
رشید امجد کے ہاں تمثیل کا ایک نیا انداز ملتا ہے۔تمثیل جو ہماری ادبی وراثت بھی ہے۔ رشید امجد کے افسانوں میں قدیم اور جدید کے امتزاج کے ساتھ دکھائے دیتی ہے۔ تمثیل کیا ہے؟
’’تمثیل ڈرامائی حکایت Dramatic Story۔ کوئی کہانی جس سے کنایۃَ یا اشارۃَ کوئی اخلاقی سبق سکھانا مقصود ہو ۔ کسی فرضی کہانی کے ذریعے کوئی اخلاقی یا مذہبی سبق دینا یا کسی مذہبی اصطلاح کی تشریح کرنا۔۔۔۔‘‘(۵۲)
رشید امجد نے محض روایتی داستانوی یا تمثیلی انداز اختیار نہیں کیا بلکہ اسے اپنے عہد کی مروجہ زبان اور مزاج بھی دیا۔افسانہ’’دور ہوتا چاند‘‘ میں تمثیل کے پیرائے میں درویش اپنی اپنی کہانیاں سناتے ہیں۔ اسی تمثیلی انداز میں ہی کہانی کا اختتام بھی ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ رشید امجد کا اپنا عہد، اس کا ذہنی اور قلبی مزاج بھی پوری طرح عیاں ہو جاتا ہے۔
’’اے درویشو! میں جو پتھر کے نصف دھڑ کے ساتھ تمہارے سامنے بیٹھا ہوں ۔ پہلا درویش ہوں میں اس پیلے جنگل کا سحر زدہ ہوں۔جو نیلے طوطوں کا مسکن ہے۔ یہ نیلے طوطے ہر آنے والے کو اپنی آنکھوں اور نوکیلی چونچوں سے کھا جاتے ہیں۔۔۔پہلا درویش چپ ہو گیا۔چند لمحے گہرا سناٹا چھا یا رہا ۔ اس دوران بیرا خالی پیالیاں اٹھا کر لے گیا۔۔۔پہلا درویش دوبارہ میز پر ہاتھ مارنا چاہتا تھاکہ دوسرے درویش نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ بیرا آجائے گا۔۔۔چوتھے درویش نے کہا ۔ بھائیو !پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ میرے پاس چائے کے پیسے ہیں۔‘‘(۵۳)
اس ضمن میں رشید امجد لکھتے ہیں:
’’میرا انداز اور اسلوب اساطیری یا داستانی نہیں بلکہ میں نے اسے ایک جدید صورت میں استعمال کیا ہے جو اپنے عہد کی مروّج زبان، محاورے اور انداز و مزاج کے دائرے میں اپنی ایک الگ شناخت بناتا ہے۔‘‘(۵۴)
جوں جوں اجتماعی طرزِ احساس اور خارج کے حوالے بدلتے ہیں ۔ رشید امجد کی فکر بھی اسی تناسب سے بدلتی جاتی ہے۔ تمثیل اس حوالے سے ان کے مجموعے ’’بھاگے ہے بیاباں مجھ سے‘‘ میں نیا انداز اختیار کرتی ہے۔ اسلوب ہمیشہ اپنے موضوع کا تابع ہوتا ہے بلکہ ہر موضوع زبان و بیان اور اظہار کا پیرا یہ اپنے ساتھ لے کر آتا ہے چونکہ اس دور کی کہانیوں میں کشف و کرامات ، ذات و کائنات سے متعلق روح اور ذہن کے فکری پس منظر کا ایک سفر ہے۔ایک ارتقاء ہے فرد اپنے داخل کے اندر اترتا اور پھیلتا چلا جارہاہے۔ چنانچہ معنوی دبازت کا احساس بڑھنے لگتا ہے۔
تمثیلی انداز اس دور کے افسانوں میں مقابلتاً زیادہ بھی ہے۔ کیونکہ موضوع اپنے اظہار کے لئے یہ راستہ اور طریقہ کار بھی منتخب کر رہا ہے۔ ’’لمحہ جو صدیاں ہوا‘‘، ’’جاگنے کو ملا دیوے خواب کے ساتھ‘‘ اور ’’چُپ صحرا‘‘ میں تمثیل کے ذریعے روح اور اس کے اسرار منکشف ہو رہے ہیں۔پہچان ، شناخت کا سفر اندر کی طرف ہے۔ علامتیں بدل رہی ہیں۔’’لمحہ جو صدیاں ہوا‘‘میں خرقہ پوش کی دروازے پر دستک ہے۔
’’راز اس وقت منکشف ہوتا ہے جب واصف، موصوف اور وصف میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ دھند آہستہ آہستہ گہری ہوتی جاتی ہے۔۔۔۔ اے شخص تو یہاں کیا لینے آیا ہے؟میں راہب نہیں ہوں بلکہ اپنے نفس کی جس نے ’’کتے‘‘ کی شکل اختیار کر لی ہے ،نگرانی کرتاہوں اور اس کو مخلوق کے شر سے محفوظ رکھنا چاہتا ہوں۔‘‘(۵۵)
تمثیل یہاں پر ماضی، حال، روح، کشف اور اس کے ساتھ زندگی کے روز مرہ معاملات کے ساتھ بھی وابستہ ہے۔ تخیل کی پرواز ماضی سے حال، روح سے حقیقت اور فرد کے داخل سے خارج کا سفر طے کر رہی ہے۔ ’’لمحہ جو صدیاں ہوا‘‘ میں پوری کہانی انہی حوالوں سے اپنی شناخت بناتی ہے۔ بڑکے درخت، موت کی ٹھنڈی انگلیاں، سوکھی ہڈیاں، شیخ ابوالبختیار مشہدی کے مزار کا منظر، ان سے گفتگو، مزار کی رنگ برنگی جھنڈیاں اور روحانی راز و نیاز۔۔۔ منظر تمثیلی انداز میں بدلتے جاتے ہیں۔
’’راستہ ہے کہ ختم ہونے ہی میں نہیں آتا۔ رات آگئی۔ شب ماہ پورن ماشی کا چاند اور ہرن ہے کہ چوکڑیاں بھرتا چلا جاتاہے۔ دفعتاً جنگل ختم ہوا۔ کیا دیکھتا ہے کہ سامنے پُر فضا باغ ہے جس کے بیچوں بیچ ایک بارہ دری لیکن یہ جنگل تو ختم ہونے ہی میں نہیں آتا ۔ آخر پر پہنچتا ہوں، تو پھر پہلا سِرا آجاتا ہے۔ ایک دائرہ۔۔۔صبح چھ بج کر پندرہ منٹ پر الارم کے ساتھ اٹھنا، شیو ، دانت صاف کرنا، ناشتہ، بچوں کو سکول چھوڑنا۔۔۔۔ایک ہی راستہ ۔ یوں ہی برسوں بیت گئے۔‘(۵۶)
یہاں رشید امجد خارجی اور مادی زندگی کے معمولات کو بنیاد بنا کر داخلی اور روحانی زندگی کے سفر کا مزاج جاننا چاہتے ہیں۔خارجی مشاہدہ ہے جو تجربے کی کڑیوں سے بندھ کر انہیں حقیقی زندگی کے اسرار جاننے کے لئے بے چین کر رہاہے۔
رشید امجد کے تمثیلی انداز میں درویش کی باتوں ، حکایتوں اور قصوں سے معنی در معنی کی کیفیت پیدا ہوتی جاتی ہے۔ان معنی کی دنیا میں ان کا عصر بھی شریک ہے۔ ذاتی زندگی بھی حوالہ بن رہی ہے اور قصے کے مختلف پہلوؤں پر سائنٹِفک انداز سے تجزیہ بھی کرتے جاتے ہیں۔
’’ایک درویش کسی شہر میں گیا۔ دیکھا کہ وہاں کا ہر شخص آئینہ کا اسیر ہے۔ درویش نے تاسّف کیا۔ افسوس اس شہر کے رہنے والے اپنے چہرے کی حقیقت کو نہیں پہچانتے ۔میرے ارد گرد پھیلا ہوا یہ شہر آئینہ۔۔۔۔ زندگی کی اس رواداری میں اپنا سامنا کرنا کتنا مشکل ہے۔۔۔آدمی کیا ہوتا ہے ؟کیا بن جاتا ہے؟میں جو دریا میں بہتا ہوا پھول تھا، جسے میری ماں نے گود میں چھپا لیا تھا۔ کیا کیا آدرش تھے میرے، زمانے کو بدل دینے کے خواب۔ وقت کی استری نے سارے بل، ساری سلوٹیں نکال کر کیسا سیدھا کر دیا۔‘‘(۵۷)
مجموعہ ’’شعلہ عشق سیاہ پو ش ہوامیرے بعد؍عکس بے خیال‘‘میں تمثیلی رنگ سب سے زیادہ ہے۔ ’’دل دریا‘‘، ’’ بے خوشبو عکس‘‘، ’’عکس بے خیال‘‘ اور بے کسیٔ پرواز‘‘ میں انداز بیان تمثیلی ہے۔
’’اے شیخ تُو جانتا ہے کہ میں شاہِ وقت ہوں؟درویش نے یہ سن کر خندہ کیا۔بادشاہ نے پوچھا: تم ہنسے کیوں؟درویش بولا:تیری کم عقلی اور تیرے جہل اور تیرے نفس اور تیرے حال پر۔۔۔کون بادشاہ،کون درویش، کبھی درویش بادشاہ بن جاتا ہے اور کبھی بادشاہ درویش ۔ کس کی سنیں، کس کے ساتھ چلیں۔ یہ تماشا ایک نسل کا ہے۔ یا کئی نسلوں کا۔۔۔‘‘(۵۸)
یہاں تمثیل ماضی، حال اور مستقبل کے کئی حوالے اور غور و فکر کے عناصر سمیٹ رہی ہے۔ بعض اوقات تمثیل اور تلمیح ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ یہ انداز اس وقت امتزاجی کیفیت میں نظر آتاہے جہاں تصوف کا رنگ گہرا ہوتا ہے۔ ’’دل دریا‘‘ میں ویدانتی، یوگی، منصور حلّاج، انا الحق اور ابلیس کا حوالہ ساتھ ساتھ آرہا ہے۔
افسانہ ’’ بے خوشبو عکس‘‘میں داستانوی انداز میں اپنے عہد کے ناہموار و نا مساعد حالات کو پیش کیا ہے ۔ اسلوب میں یہاں بھی جدت ہے۔
’’داستان گو بتاتا ہے کہ شہر چھوڑ نے سے پہلے میں نے شہر کی فصیل سے شہر پر نظر ڈالی۔ ہر طرف ایک خاموشی تھی۔۔۔‘‘(۵۹)
اور ’’بیکسئی پرواز‘‘ میں
’’روایت ہے کہ وہ چھ تھے اور انہوں نے کئی دنوں کی سوچ بچار کے بعد بلا کا مقابلہ کیا تھا۔جو شہر کی فصیل پر بیٹھی ہوئی تھی اور کسی کو اندر نہ آنے دیتی تھی۔‘‘(۶۰)
رشید امجد کی تمثیلیں روایت کے حوالے سے روحانیت اور مادیت کے عناصر کو سمیٹتی ہوئی اپنے عہد کے سیاسی اور سماجی عوامل کی کھونٹی سے بندھی ہوئی نظر آتی ہیں۔
تجزیاتی اور سائنٹِفک پیرایہ بیان:
رشید امجد کا فکری سفر ذات سے کائنات کی طرف رجوع کرتا جاتاہے۔موضوعات کی کھوج، تجسس، تلاش اور حقیقت کے نئے نئے پرت اٹھتے جاتے ہیں۔ موضوعات اور حقیقت کی روحانی پرکھ کے ساتھ ساتھ ان کی تجزیاتی اور سائنٹفک نگاہ کو بھی تحریک ملتی ہے۔یہ دور فلسفے اور سائنس کا ہے ۔ ان کے اسلوب کا یہ پہلو اس دور کے حوالے سے اپنی ایک جدا گانہ پہچان بناتا ہے۔
’’چیزیں آتی جاتی رہتی ہیں۔۔۔جنم لیتی ہیں۔ پھر کسی بلیک ہول میں گم ہو جاتی ہیں۔۔ یہ بھی کیا عذاب ہے کہ آدمی مرچکا ہے اور اس کے ذہن کے کچھ حصے کام کر رہے ہیں اور وہ خود اپنی آخری رسومات دیکھ رہا ہے۔‘‘(۶۱)
یہاں مووی کیمرہ، ریکارڈنگ ،سب علامتیں ہیں۔ اس نظام ہستی کی جہاں ہر شخص ایک کردار ہے۔ یہاں نظامِ قدرت کی اصل صورت ، اس سسٹم کے بارے میں فلسفیانہ نقطہء نظر سے تقابلی منظر بیان کیا گیا ہے جو ریکارڈنگ روم اوراس کے سسٹم کی مماثلتی شکل ہے۔
’’کائنات بھی ایک جسم ہے جیسے ہمارا یہ جسم جس کے اندر کئی دنیائیں آباد ہیں۔ جراثیموں سے بھری ہوئی دنیائیں اور ہمارا ذہن ان سب کو، پورے جسم کو کنٹرول کرتا ہے ۔ کائنات بھی ایک جسم ہے اور ہم اس کے اندر چھوٹے چھوٹے جسم ہیں۔ اس کا بھی ایک ذہن ہے ۔ ایک ماسٹر مائنڈ۔‘‘(۶۲)
بعض اوقات حقائق کا صرف تجزیہ کرتے ہیں ۔ کسی شے، کسی وجود کے ہونے نہ ہونے کی سمتوں کا احاطہ جو ایک فکری عنصر کو جنم دیتاہے۔
’’میں وہ اور دوسرے سب تصویر کی ناتکمیلی کا نوحہ ہیں۔ایسا نوحہ کہ جس کا نہ کوئی عنوان ہے نہ موضوع۔ پہلی سطر سے ماتم شروع ہوتا ہے اور آخری سطر اور اس آخری سطر کے انتظار میں ،میری اس کی اور ہم سب کی بھنویں سفید ہو گئی ہیں۔‘‘(۶۳)
یہ کائنات کیا ہے۔ انسان،اشیاء کا وجود ، سب کی حقیقت کیا ہے؟وہ اس پر غور وخوض کرتے ہیں۔ ان کی تجزیاتی نگاہ کا بھی ایک ارتقاء ہے۔
’’۔۔۔کچھ عرصہ بعد یوں لگا جیسے کبھی اچانک اس کے وجود کو کرنٹ سا لگتا ہے لیکن کئی بار ایسا بھی ہوا کہ کسی شے کو چھوئے بغیر ہی اسے یہ جھٹکا لگا۔ اب اس نے سوچنا شروع کیا کہ اگر کسی شے کو چھوتے ہوئے مجھے یہ جھٹکا نہیں لگتا تو وہ کون سی شے اور منظر ہے جسے دیکھ کر کوئی انگڑائی لیتاہے۔‘‘(۶۴)
رشیدامجد کا سائنٹِفک نقطہ نظر بیک وقت دو دنیاؤں میں سفر کرتا نظرآتا ہے۔ ایک دنیا روح کی ہے اور دوسری مادے کی۔دونوں اسرار سے بھر پور۔
تصوف، روحانیت یا روحانی کیفیات کا موضوع رشید امجد کے یہاں نہ صرف بنیادی حیثیت رکھتا ہے بلکہ کئی عنوانات مکمل صورت میں تشکیل پاتے نظر آتے ہیں۔وہ شخص جو خارج کی تکلیف دہ زندگی سے گھبراکر، بے چین ہو کر صداقت کی تلاش میں نکلا ہے وہ دیکھتا ہے کہ داخل میں اس صداقت کے رنگ ہی مختلف ہیں۔ یہاں کی جذب و مستی کا انداز ہی کچھ اور ہے۔ اس دنیا کی کیفیات جو ان کے یہاں موضوعات بنتی ہیں۔وہاں اسلوب کا رنگ مکمل طور پرجدا اور منفرد نظر آتا ہے۔تشبیہہ و استعارہ کا برتاؤ فرق ہو جاتاہے۔ پیکر تراشی کی کیفیت بالکل الگ ہو جاتی ہے۔یہاں داخلی کیفیات خوابوں کی صورت اپنا طلسم قائم کر لیتی ہیں۔ فرد کا اک نیا سفر انہی خوابوں اور حقیقت کی دنیا میں متوازی چلتا ہے۔ خود اپنے اندر کے وجود کو سونگھتا اور محسوس کرتا ہے۔
’’اس نیم تاریک گلی میں وہ میرے پیچھے کیوں آتاہے؟اور میری آنکھوں کے خواب کیوں چُرالے جاتا ہے؟خواب خواہشوں کی نازک کلائیوں میں پہنی چوڑیوں کی کرچیاں ہیں۔ٹوٹی کرچیاں، خواب ہی خواب، ٹیلہ کے اس طرف بھی۔اس طرف بھی۔۔۔‘‘(۶۵)
یہ داخلی سفر تجسس اور بے چینی کا سفر ہے۔چلتے جانا، نا معلوم کی طرف، فاصلوں کا کسے ہوش ہے ۔ کرب، کسک، بے قراری اس دنیا کی ضرورت ہے۔اس کی غذا ہے۔ اس دنیا کا راہنما مرشد ہے۔ یہ مرشد ہر انسان کے اندر ہے۔ کہیں یہ دُوئی کی صورت میں وجود کے اندر پایاجاتا ہے اور کہیں اندر ہی اندر گمشدگی کے سپرد ہو جاتا ہے۔ رشید امجد کا مرشد افسانہ ’’نارسائی کی مٹھیوں میں ‘‘ جنم لیتا ہے۔ کہیں ابھرتا ہے اور کہیں معدوم ہو جاتا ہے۔ یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ اندر کا یہ مرشد، یہ روحانی کیفیت کی پختگی، انسان کو خارج سے متصادم ہونے کے بعد میسر آتی ہے جو باہر ہی اپنی شناخت نہ پا سکا۔ وہ اپنے اندر کیسے اترے گا؟کِسے تلاش کرے گا؟ابتدا میں فرد اپنے خارج اور داخل کی متصادم سوچوں اور معاملات میں الجھا ہوا ہے جو معلوم ہوا ، وہ ابھی نا معلوم ہے۔’’سمندر مجھے بلاتا ہے‘‘میں تمام کہانی جو چھ حصوں پر مشتمل ہے۔ مرشد کی کرداری علامت پوری کہانی پر محیط ہے۔
’’بے چینی روح کی طلب ہے۔ اس نے اپنے آپ سے کہا اور جانے میں کِسے ڈھونڈتا ہوں۔مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں ، وہ ہے کہاں؟ کہیں بھی نہیں اور ہر جگہ ۔ مرشد نے آہستہ سے کہا۔بس اپنی عینک کے نمبر ٹھیک کر لو۔‘‘(۶۶)
’’عینک کی نمبر ٹھیک کروانے‘‘ سے مراد اس مادے کی محبت میں مبتلا ہوتے ہوئے روح اور سچائی کی تلاش کی اہلیت ہے۔اس کی شناخت ہے۔جو فرد کے ہاتھوں سے نکلتی جاتی ہے۔یہاں اسلوب داخلی اور خارجی دونوں جہتوں کا عکاس نظرآتا ہے۔
رشید امجد کا فسانوی مجموعہ’’بھاگے ہے بیاباں مجھ سے‘‘میں اسلوب کا ایک جداگانہ انداز ہے کیونکہ موضوعات کا تعلق زیادہ تر روحانیت سے متعلق ہے۔ رشید امجد اس ضمن میں لکھتے ہیں:
’’بھاگے ہے بیاباں مجھ سے‘‘میں ساری علامتیں اور استعارے مختلف ہو جاتے ہیں۔ مرشد کی فلسفیانہ گفتگو اور تفکر بھرے جملے ساری فضا کو بدل دیتے ہیں ۔ یہ میرا ارتقاء بھی ہے اور میرے اسلوب کی مختلف صورتیں بھی۔‘‘(۶۷)
یہ فلسفہ ، یہ داخلیت۔۔۔۔وجودیت ہے جو کچھ ہے وہ اس کی مختلف صورتیں اور اس ’’کُل‘‘ کے حصے ہیں جو ذات و کائنات کا ’’مختارِ کُلُ‘‘ ہے۔ ’’جزو‘‘کا ’’کُل‘‘سے ملن سہل نہیں۔ایک سفر درپیش ہے۔یہاں خوف، دہشت، خواب،تجسس کے سارے حوالے، ساری علامتیں اپنی داخلی کیفیات میں سمٹ رہی ہیں۔معنوی دبازت ابھرنے لگتی ہے۔ کوئی خواب کوئی گمان۔۔۔ لاعلمی سے علم کی جانب۔رشیدا مجد نے جس ’’ارتقاء‘‘کا ذکر کیا ہے وہ فکر کا بھی ارتقاء ہے۔اور اسلوب کا بھی۔
’’دل کی آواز عجیب چیز ہے۔ اس کے لئے بے چینی اور اضطراب جو ہے وہ آدمی کو کشاں کشاں لئے پھرتی ہے۔‘‘(۶۸)
’’اور یہ رسے کے درمیان رہ کر ڈولنے میں بھی ایک عجیب مزہ ہے۔ ایک ایسی لذت ہے جسے خود ہی محسوس کیا جا سکتاہے۔ گِر پڑنے کا خوف، دونوں کناروں سے آتی آوازیں، ترغیبات اور اپنی اپنی طرف کھینچنے کی کوشش۔۔۔‘‘(۶۹)
یہاں انسان کی فکری فضا میں ایک سنجیدگی ، توازن ٹھہراؤ کی کیفیت واضح طور پر ابھرتی ہے۔ یہ شعور فرد کو اپنے داخل میں اترنے سے میسر آیا ہے۔ ’’سناٹا بولتا ہے ۲‘‘کی ابتدا اسی انداز سے ہوتی ہے۔ پرندے کی علامتیں ، خواہش، آرزوسب کی جہت بدل رہی ہے۔حالات کو سمجھنے اور زندگی کو برتنے کا سلیقہ اور اعتدال فرد کے ہاتھ آرہا ہے جس کی واضح صورت اسلوب میں ظاہر ہو رہی ہے ۔یہاں دھندکے علامتی سلسلے بدلنے لگتے ہیں۔
’’میں اس لمحہ کی لذت میں گم رہنا چاہتا ہوں۔ زندگی کی سنسان سڑک پر خاموشی کے ساتھ چلتے جانا اور ایک دن نیستی کی دھند میں ڈوب جانا۔ ‘‘(۷۰)
’’اس کے اندر کوئی شے بے تحاشا ہاتھ پیر مار کر اس دھندلے غبار کو چیرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس نے سر جھٹک کر چیزوں کو پہچاننے کی کوشش کی لیکن سچائی سڑک پر پڑی ہوئی کوئی شے بھی تو نہیں۔۔۔۔‘‘(۷۱)
زندگی اب فرد سے دست و گریبان نہیں۔
’’ہم میں سے ہر ایک، ایک دائرے میں بند ہے اور دائرے کی حدوں تک ہی آگے پیچھے جا سکتا ہے۔ شاید یہی مقصود ہے۔‘‘(۷۲)
’’ڈوبنے اور تیرنے کے درمیان یہ جو وقفہ ہے۔۔ یہ کیا ہے؟، خواب کا یا جاگنے کا اور ان کے درمیان ایک پُل صراط ہے جو اس پر سے جلدی سے گزر جائے وہ پار چلا جاتا ہے جو نہ گزر سکے ہمیشہ کے لئے وہیں رہ جاتا ہے ۔ ‘ ‘ (۷۳ )
سمندر اور دریا کے استعارے تصورِ موت میں وقت کے ساتھ منسلک ہیں لیکن جب داخلی اور روحانی موضوعات میں یہ حوالہ بنتے ہیں تو ازلی اور ابدی سچائی کا ۔۔۔حقیقتِ کُل کا:
’’وہ کِسے آوازیں دے رہا ہے۔ سمند ر تو اس کے اندر ہے۔ باہر کسے تلاش کر رہا ہے۔‘‘(۷۴)
اس موضوع اور کیفیت پر مبنی افسانوں میں اسلوب کا رنگ ہر لحاظ سے مختلف ہے۔ سُر، دھن، لَے ،موسیقیت محسوساتی سطح پرمتحرک نظر آتی ہے۔یہ وہ تحرک ہے جو صوفی کو وجدوحال عطا کرتا ہے۔ جہاں فرد اپنے اندر گم ہونے لگتا ہے ۔ یہ گمشدگی ہی شناخت کا راستہ اختیار کرتی ہے۔
’’پاس ہی ایک پرندہ پھڑ پھڑا کر نکلا اور دل آنگن میں ناچنے لگا۔ مُرلی کی تان چاروں طرف پھیل گئی۔ وہ تانوں کی لہروں پر قدم رکھتی آہستگی سے قریب آئی۔۔۔ اور اسے لگا، سارا کچھ ایکدم بھڑکتی آگ میں تبدیل ہو گیا ہے اور دونوں آگ کی موسیقی پر ناچ رہے ہیں اور شعلوں کی لپکتی زبانیں ان کے چاروں طرف دھمال ڈال رہی ہیں۔‘‘(۷۵)
یہاں کیفیات ہی کیفیات ہیں۔ لفظ نا کافی اور بے زبان ہیں۔ احساس جو لفظوں میں قید نہیں ہوپاتا۔
’’کہنے کو تو بہت سی باتیں ابھی باقی ہیں لیکن لفظ بے وفا ہو گئے ہیں۔ بس صحرا، گھپ خاموشی، تھتھا تھیا تھیا، چھیتی کراوئے طبیبا نئیں تے میں مر گئی آں۔ چھیتی کر اوئے طبیبا۔۔۔۔چھیتی چھیتی۔۔۔‘‘(۷۶)
’’اس سُر اور لَے کے دھارے روح کی سرمستی سے بندھے ہوئے ہیں۔یہ روح کی بیداری کا دوسرانام ہے۔
’’وہ رقص کرتی آتی ہے۔ وہ ونجلی نیچے رکھ دیتا ہے۔ وہ پوچھتی ہے۔ ونجلی بجانی کیوں بند کر دی ۔ وہ کہتاہے۔اس کی تان تو تم ہو۔‘‘(۷۷)
رقص ، موسیقی ، وجدو حال اور روح کے اس رشتے کو رشید امجد نے کہانی ’’جنگل شہر ہوئے ‘‘میں پورے سٹیج پر پھیلا دیا ہے جو درحقیقت روحانی دنیا میں سُر ، روح، بیداری اور آگہی کی کیفیت کا دوسرا نام ہے۔برگدکا پیڑ، سوکھی انتڑیوں میں لپٹی دانائی میں شناسائی کی لذت، روشنی، سب اسی کیفیت کی علامتیں ہیں۔
’’تمہاری ذہنی سطح بہت پست ہے۔ میں نے یہ فن بڑی ریاضت سے سیکھا ہے۔وہ ٹھہر ٹھہر کر بولتی ہے۔تماشائیوں کوایسے لمحہ میں لے جانا جہاں چیزیں ساکت ہو جاتی ہیں۔ وقت رک جاتاہے ۔ ۔ ۔ ۔ بدن کی غلاظتیں نیچے رہ جاتی ہیں۔‘‘(۷۸)
افسانہ ’’شعلۂ عشق سیاہ پوش ہوا میرے بعد‘‘میں پوری فضا موسیقی کے اسی داخلی پہلو کے ساتھ جُڑی ہوئی ہے۔
مزارمستان شاہ، موٹر سائیکل ، قبر، سفید ریش لمبی زلفوں والا بزرگ، ہیر، رانجھا، سٹیج، سیاہ پوش درویش،سلطان، ونجلی، فقیری،سب کی سب علامتیں موسیقی او ر روح کی بیداری کے حوالے سے خارج کی تضاداتی سرحدوں کو چھوتی ہوئی منظرِ عام پرآتی ہیں۔
’’ہاں یا دآیا ، ہم یہ ڈرامہ لے کر اگلے ماہ کراچی جا رہے ہیں۔چلو گے؟۔۔۔
میں کیا کروں گا۔ مجھے تو ونجلی بجانا ہی نہیں آتا۔
’’تو تم کان چھدوا کر فقیر بن جانا ‘‘وہ ہنستی ہے۔
’’لیکن مجھے تو مانگنا بھی نہیں آتا۔ایک بادشاہ نے درویش سے کہا۔ کچھ مانگیے۔درویش نے کہا۔ مجھے تو مانگنا نہیں آتا۔۔تو پھر کچھ دے دیجئے۔ درویش بولا ۔ افسوس میرے پاس دینے کے لئے بھی کچھ نہیں۔ ۔ ‘‘ (۷۹ )
رشید امجد کے یہاں تصوف کے موضوعات نہ صرف جامعیت کے ساتھ ابھرے ہیں بلکہ ان کا اس ضمن میں مخصوص لب و لہجہ، زبان وبیان، متصوفانہ اصطلاحیں، بصیرت و بصارت کا تصادم ، حکایات، تمثیلی انداز، داخلی خود آگہی کی مختلف منازل،روحانی تحیر کے ارتقائی مرحلے ان کے اسلوب میں سب سے جدا اور ان کی ایک منفرد پہچان بنتے ہیں۔تصوف کی تعریف اور اس کا مفہوم موضوع اور زبان دونوں کے حوالے سے مکمل ہوتا ہے۔زبان کے اندر تاثر اور کیفیت کا ہونا بھی از بس ضروری ہے اور رشید امجد نے متصوفانہ موضوعات کو ان تمام حوالوں سے برتا ہے۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ میں تصوف کی تعریف اس طور کی گئی ہے:
’’تصوف مادہ میں ص۔و۔ف۔ کے باب تفعّل سے مصدر ہے جس کے معنی ہیں، اپنے آپ کو صوفیانہ زندگی کے لئے وقف کرنا۔۔۔اس سے بے شمار ایسے الفاظ مشتق ہیں جو تصوف کے بعض بنیادی پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں۔مثلاً صفا(پاکیزگی)اور صفو(برگزیدہ لوگ)صفی(خالص دوست)۔۔۔‘‘(۸۰)
تصوف کے موضوع کو برتنے کے لئے مخصوص زبان و بیان اور اسی حوالے سے مخصوص لسانی سانچوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ انتظار حسین اس ضمن میں لکھتے ہیں۔
’’تصوف کی روایت ایسے سانچوں کو جنم دیتی ہے۔جن کے راستے ہم اپنا اظہار کرتے رہتے ہیں اور قلب و نظر کی سطح پر زندہ رہتے ہیں۔ ۔۔ ہمارے اندر جو شے مر گئی ہے۔ اسے زندہ کرتے ہیں۔ جو علاقے خشک ہو گئے ہیں۔انہیں سیراب کرتے ہیں۔ یعنی ان کے طفیل ہمارے دل گداز رہتے ہیں اور شعر اور افسانے کو قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔‘‘(۸۱)
ان عوامل اور حقائق کی روشنی میں بھی اس نکتے اور پہلو کو خاصی تقویت ملتی ہے۔کہ رشید امجد نے نہ صرف تصوف کے موضوعات کو جامعیت کے ساتھ اپنے افسانوں میں برتاہے بلکہ مخصوص زبان و بیان اور اظہار کے سانچوں میں تصوف کی روایت کے بانی بھی ہیں۔یہ وہ دنیا ہے،وہ روحانی سفر ہے جس کی ہر ہر قدم پر کیفیت بدلتی ہے۔ ہر کیفیت کی اپنی زبان ہے۔ اس دنیا کی ہر کیفیت اسرار سے بھری ہوئی ہے۔کشف اس وادی میں قدم قدم پر بکھرا ہوا ہے۔رشید امجد کا اسلوب ہمہ جہت ہے۔ اس کا کوئی ایک حوالہ، کوئی ایک مخصوص رنگ نہیں۔خود اس ضمن میں لکھتے ہیں:
’’اسلوب کی ساری صورتیں میرے مجموعی اسلوب کی مختلف پرتیں ہیں اور میرے بنیادی موضوع شناخت اور پہچان کے ارتقائی تصور سے جُڑی ہوئی ہیں۔‘‘(۷۲)
داخلی شناخت اور انکشافِ ذات کا سفر ابھی جاری و ساری ہے۔اس کی نہ تو کوئی منزل ہے اور نہ انتہا۔ اب تک کے آخری افسانوی مجموعہ’’ست رنگے پرندے کے تعاقب میں‘‘میں بھی یہ انداز ، یہ داخلی لذت جوں کی توں ہے۔ پھر سے تلاش حقیقت، ارتقائے حیات کے مرحلے، مرشد وجود کی دوئی سے پھر ذات کی اکائی میں ضم ہو چکا ہے۔ مسخر ہونے اور تسخیر کرنے کے مرحلے باقی ہیں۔
’’تو کیا زندگی کے صحرا سے نکل کر اسی نا معلوم صحرا میں بھٹکنا ہے۔‘‘(۸۳)
’’شاید یہ روشنی مجھے ایک نیا قالب دے دے ۔ اس نے سوچا اور تیزی سے اس کی طرف بڑھنے لگا لیکن جوں جوں آگے بڑھتا۔ وہ اور دور ہوتی جاتی ہے۔‘‘(۸۴)
اس تمام صورتِ حال سے یوں لگتا ہے کہ انسان کو ایک مخصوص وقت اور عمر کے مخصوص حصے میں جب روحانی بیداری اور صداقت درکار ہوتی ہے تاکہ ذات اور کائنات سے متعلق اس کا شعور پختہ ہو کر ایک مخصوص راہ کا تعین کرے۔ مرشد یہیں کہیں وجود پاتا اور پاسکتاہے۔یہ داخلی اور روحانی شعور و آگہی کی تشکیلی اور تکمیلی صورت ہے۔ یہ ہدایت کا سر چشمہ ہے۔رشید امجد کا مرشد اس حوالے سے فار غ البال ہو چکا ہے۔یہاں اسلوب میں انسان کی داخلی اور خارجی کیفیات حقیقی منظر نامے کے عکس میں گُندھی ہوئی ہیں۔
رشید امجد کے یہاں اکثر خیال ، جذبہ اور منظر کشی صرف ایک دوسرے سے گھلے مِلے ہی نہیں ہوتے بلکہ ان سب کے سِرے ایک دوسرے میں بُری طرح پیوست ہوتے ہیں۔ یہ ان کے فن اور فکر کی اکائی بھی ہے۔ یہ اسلوب کے داخل اور خارج کی ایک مخصوص جہت ہے۔اسی سے ان کا تخلیقی پروسس جاری و ساری رہتا ہے اور اسلوب میں گہری معنویت بھی پیدا ہوتی ہے۔
’’دھنداب اتنی گہری ہو چلی تھی کہ ہم سب سایوں میں بدل گئے تھے۔ ہمارے اپنے قدموں کی چاپ اور پیچھے آنے والی سسکیاں خاموشی کا سینہ چیر رہی تھیں۔وہ کبھی دوڑنے لگتی اور کبھی رُک جاتی اور چیخ چیخ کر اسے پکارتی۔‘‘(۹۳)
ان کے یہاں نہ صرف کوئی ایک منظر، ایک وقوعہ ہی خیال کی کسی فکری لہر کو جنم دیتاہے بلکہ یہ خیال اور اس کی فکری لہروں کا تسلسل اتنا بڑھتا، اتنا پھیلتا ہے کہ وقوعہ ٹھوس اور جامد حالت میں تو قائم رہتا ہے لیکن خیال بڑھتے بڑھتے کہانی کو آغاز سے انجام تک پہنچا دیتا ہے۔اس ضمن میں افسانہ ’’ڈوبتی پہچان‘‘بھی بہت اہم ہے۔
اسی طرح بعض اوقات منظر، حالت، کیفیت ایک ہی رہتی ہے لیکن اس دورانئے میں زمانے ، صدیاں، ان مسافتوں کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل، سب کچھ فرد کے اوپر سے گزر جاتاہے۔وجہ یہ ہے کہ رشید امجد کی ذہنی تخلیقی رو کے راستے میں کوئی شے مانع نہیں ہے۔کوئی مجبوری اور پابندی انہیں پیشِ نظر نہیں۔ ایک تخلیقی اکائی ہے۔ موضوع اور بیان کی۔ اس کی تکمیل کسی بھی زمانے میں ہو، کسی بھی حوالے اور کیفیت سے ہو ،وہ کر گزرتے ہیں۔ شعور، لاشعور اس انداز میں ان کے ہمراہ ہیں۔ خارج، داخل دونوں دنیائیں ان کے ساتھ ساتھ چل رہی ہیں۔ ایسے میں ان کی تخلیقی سطح کو یقینا بڑی ذہانت اور سرعت کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے۔ علامتی سلسلے خود بخود بدلتے جاتے ہیں۔ اسلوب میں معنویت کا عنصر پیدا ہو جاتا ہے۔ ’’گمشدہ آواز کی دستک‘‘ میں بھی یہ انداز بہت نمایاں ہے۔’’جاگتی آنکھوں کے خواب‘‘ میں وہ اس حوالے سے لکھتے ہیں:
’’پہچان کی ساری رسیاں ایک ایک کر کے ٹوٹ رہی تھیں۔۔۔ ایک ایک لمحہ،ایک ایک سال، ایک صدی جانے کب سے وہ اس میز پر پڑا وقت کی طنابوں کو انتظار کی کند چھری سے کاٹ رہاتھا۔۔۔اس کے سوالوں کی ٹوکری میں سارے انڈے کچے تھے۔۔۔‘‘(۹۳)
داخل میں اس کی صورت ایک کیفیت کی مانند ہے۔ یہ سلسلہ بھی طویل ہو جاتا ہے ۔ ا س سے ایک طرف قاری منظر سے وابستہ تمام حقیقت کو سمجھنے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہو جاتا ہے۔دوسرے یہ کہ اس طریقہ کار سے رشید امجد قاری کے ذہن کو ایک طرح سے اپنی فکری ہم آہنگی میں شریک کر لیتے ہیں۔یہ منظر کشی، تخیل اور حقیقت دونوں حوالوں سے ہے۔
’’نیم تاریک، سنسان گلی، دور تک خالی، گلی میں کوئی درخت نہیں لیکن ہر وقت گھنی چھاؤں کا سا احساس ہوتا ہے۔ نیم پکے، نیم کچے فرش پر قدموں کی چاپ بیٹھی بیٹھی سی لگتی ہے ۔ نیم بوسیدہ دروازے بند،جن کے اندر چھپی اَن دیکھی دنیائیں، ان کے مکین گم آوازوں کے حصار میں دور کہیں سائے سے، چلتے چلتے، ٹھٹھکتے ٹھٹھکتے، آگے جا، اس طرح کا ایک نیم بوسیدہ گم صم سادروازہ، کبھی دور سے آنکھیں مارتا تھا لیکن اب دیمک کی زد میں بوند بوند مٹی ہو ا جارہا تھا۔زمانوں کے زنگار میں لتھڑا ، حیران حیران سا، چپ چپ سا۔‘‘(۹۴)
رشید امجد کی منظر کشی بے روح نہیں۔آنکھ اپنے خارج میں جو کچھ دیکھتی ہے۔ اسے اپنے اندر اتار کر روح کے حوالے کر دیتی ہے۔ گویا بصیرت اور بصارت دونوں اسی منظر کشی کی تخلیق میں شامل ہیں۔یہ انداز ان کے اسلوب میں رفتہ رفتہ گہرا ہوتا جاتا ہے۔
’’گھنا درخت اسی طرح کھڑا ہے لیکن اب اس کا تنا کھوکھلا ہو چکا ہے۔قریب ہو کر اس نے اندر جھانکا۔تنا اند سے خالی تھا۔ چیونٹیوں اور کیڑوں کی قطاریں کھوکھلے تنے میں نیچے سے اوپر جا رہی تھیں۔۔۔اس کے سارے جسم پردرد کی سوئیاں چبھنے لگیں۔‘‘(۹۵)
ان کے یہاں منظر کشی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ چھوٹی چھوٹی جزئیات کے ساتھ اس کو اس طرح سے پیش کیا جاتا ہے، حال کے منظر میں ماضی کے حالات و واقعات کو اس طرح سے گوندھ دیا جاتا ہے کہ نہ صرف منظر تخلیق پاتا ہے بلکہ حال اور ماضی دونوں کی مخصوص علامتیں اور اس منظر کے حوالے سے داخلی کیفیات بھی ا س سے وابستہ نظر آتی ہیں۔یہاں منظر خود کہانی کے واقعات میں ایک واقعہ نظر آنے لگتا ہے۔ یہ منظر ایک وقت میں ماضی اور حال دونوں کے تھپیڑے کھاتا ہے۔
’’ان عمارتوں کے آگے اور پیچھے ویران راستے تھے جن پر اب جانور ہی گزرا کرتے۔ کناروں پر اُگی گھاس نے بنیادوں کو چھپا دیا تھا۔کبھی ان راستوں پر بیڑیاں پہنے پاؤں کی چاپ گونجا کرتی تھی۔ بیرکوں کی دیواروں پر لگے سسکیوں کے نشان اب بہت مدھم پڑ گئے تھے۔‘‘(۹۶)
یہاں اسلوب کی شدت اور گہرا اثر درحقیقت اپنے موضوع کی فکری لہر سے پھوٹ رہا ہے۔رشید امجد نے اردو افسانے کے فرسودہ اور مستعمل اسلوب کو نہ صرف نیا پن دیا بلکہ اس نئے پن میں معانی اور تہ داری کی ایک دنیا آباد ہے۔ انہوں نے اس زبان کو ممکنہ حد تک لچکدار حدود تک پہنچایا ہے ۔ اسلوب ان کے یہاں کوئی بندھا بندھایا یا مقرر شدہ سانچہ نہیں جس کے وہ پابند ہو جائیں بلکہ ہر خیال ، ہر جذبہ ، ہر فکری لہر اپنے اظہار اور پیرایۂ بیان کو ساتھ لے کر ابھرتی ہے۔ اس دوران فطری طور پر نئے الفاظ چاہے مقامی ہوں یا غیر مانو س ہوں، اپنی زبان کا لوچ اور آہنگ ہمراہ لاتے ہیں۔
رشید امجد نے نامانوس الفاظ کے ذریعے نہ صرف اپنی زبان اور اسلوب کو نیا پن دیا بلکہ یہ اس بات کابھی اشاریہ ہے کہ نئے الفاظ کسی بھی زبان و ادب میں فطری طور پر برتے اور کھپائے جا سکتے ہیں۔ یہ جدت ، یہ انفرادیت ان کے ہاں ایک ’’اوریجنل‘‘صورتِ حال کو جنم دیتی ہے۔
انہوں نے ہندی کے الفاظ بھی اس طور استعمال کئے ہیں جو ایک طرف موضوع کی وضاحت میں مدد گار ہیں تو دوسری طرف ان کے باعث اسلوب میں جدت اور اچھوتا پن پیدا ہواہے اور اس کے ساتھ ساتھ زبان کی نزاکت، لطافت اور اس کی نفاست بھی دو چند ہو جاتی ہے۔دوسر ی زبانوں کے یہ الفاظ ان کے یہاں فطری انداز اور کمالِ مہارت سے برتے گئے ہیں۔ مثلاً گوتم،مورتی، کوشلیا، پالاگن،دیوی، بھگوان،جیون، مہا آتما، مندر ، پوترماں، روپ متی کنیا، مدن موہن،دیا شنکر،گرودیو،چرن، بے انت ، ساگر اور نمسکار وغیرہ۔
’’ہے بھگوان، پورس اس دھرتی کا سپوت ہے۔ تیرا بیٹاہے۔ تیری دھرتی کا رکھوالا ، اسے شکتی دیجیو۔‘‘(۹۷)
’’میرے بالکو!نیندرا منش کی جیون کی مرتو ہے۔ جواسے چکر میں کھینچ لیتی ہے۔یہ شریرنیندرا کے جھانسے میں آن کروشنیش گیان کی راہ سے ہٹ جاتا ہے لیکن آتما۔۔۔آتما تو بھگوان کا سندرروپ ہے جو کبھی نہیں مر سکتی۔ بھگوان کی طرح آتما بھی بھشٹ نہیں ہو سکتی ‘‘(۹۸)
اسی طرح مقامی زبانوں کے کئی الفاظ جو رشید امجد کے یہاں بالکل نئے ہیں۔ یہ نہ صرف ان کے اسلوب کی جدت کا سبب ہیں بلکہ ان میں سے اکثر ان کے تمام فنی سفر میں ایک مسلسل ارتقائی حالت میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں لفظ’’بکل‘‘ اور’’شوکنا‘‘اہم ہیں۔
’’چند لمحوں بعد بستی پھر دھند اور تاریکی کی بکل میں گہری نیند سو گئی۔‘‘(۹۹)
لفظ ’’بکل‘‘خارجی سطح پر ضرور اپنے پہلو بدلتا ہے لیکن داخلی سطح پر اس لفظ کی تہ داری ، اس کی مختلف پر تیں ، اس کی معنوی دبازت و ہ پناہ گاہیں ہیں جہاں رشید امجد اپنا بہت سا فکری سر مایہ چشمِزدن میں اور چپکے ہی چپکے جمع کروادیتے ہیں۔ یہ لفظ رشید کے تہ دار شعور کابھی ترجمان ہے اور ان کے فنی سفر میں مسلسل ارتقاء پذیر بھی۔ کہیں معنوی گہرائی کے ساتھ ہے اور کہیں اس کے بغیر بھی استعمال ہے۔
’’ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ اپنے دکھ بانٹ لینا چاہتے تھے مگر انا کی دبیز دھند ہمارے درمیان حائل تھی۔‘‘(۱۰۰)
’’چوہدری شیر اکمبل کی بکل مار کر آگے آگے چل پڑا۔کنڈی کھول کر وہ ایک طرف ہو گیا۔‘‘(۱۰۱)
’’دیوار کی اوٹ سے کمبل کی بُکل مارے ہوئے کوئی شخص دبے پاؤں چلتا ہمارے قریب آیا۔‘‘(۱۰۲)
’’۔۔۔میں نے ان دیواروں سے بہت مکالمہ کیا ہے۔اپنے جاننے ،ہونے ، پانے اور کھوجانے کے بارے میں بے شمار سوال کئے ہیں اور دیواروں نے مجھے جواب دئیے ہیں۔۔۔ان کی گود ایک ایسی بکل ہے جس میں گم ہو کر میں ایک نئی دنیا میں پہنچ جاتا ہوں۔۔۔‘‘(۱۰۳)
لفظ ’’شوکنا ‘‘ان کے یہاں ساٹھ کی دہائی کے افسانوں سے ہی آغاز پاتاہے۔
’’میں چپ چاپ نوٹوں کو دیکھتا رہا جو سامنے پڑے سرخ زبانیں نکالے شُوک رہے تھے۔‘‘ (۰۴)
اسی حوالے سے لفظ’’شوکنا‘‘اسلوب کی کئی خارجی اور باطنی معنویت کا پس منظر بن کر ابھرتا ہے۔
’’اسی کے چہرے پروہی اداسی پھن پھیلائے شوک رہی تھی۔‘‘(۱۰۵)
’’کوکھ جلی ماں موڑ کی اندھی گلی میں کھڑی ، بازو پھیلائے، الٹے پاؤں کا طلسم لئے شُوک رہی ہے۔‘‘(۱۰۶)
اب تک کے آخری مجموعے’’ست رنگے پرندے کے تعاقب میں‘‘بھی یہ لفظ ایک نئی جہت سے موجود ہے۔
’’اب رات تھی اور سیاہی میں بھی برف سپید ہی تھی۔البتہ ٹھنڈک نیچے بھی تھی اور چاروں طرف بھی۔ برف کے سانپ شُوک تو رہے تھے مگر انہوں نے اسے ڈسا نہیں تھا۔‘‘(۱۰۷)
یہاں ’’سانپ‘‘ ، ’’شوکنا‘‘، جیسے الفاظ اپنی داخلی شدت کو خارجی شدت سے ملا کر نہ صرف اکائی بنتے ہیں بلکہ تاثر کی نوعیت بھی شدید تر ہو جاتی ہے۔یہ ضرور ہے کہ ماحول اور کیفیت کے مطابق سانپ کا حوالہ تو بدلتا رہتا ہے لیکن لفظ ’’شوکنا‘‘کی شدید اور کسی قدر ہیبت ناک محسوساتی کیفیت کم و بیش ایک سی رہتی ہے۔یہاں پر کیفیت خارج کے جبر کے ساتھ وابستہ نظر آتی ہے۔
’’کمرے کے باہر جو سانپ شوکتا رہتا تھا۔رینگ کر کمرے کے اندر چلا آیا ہے۔۔۔۔سانپ لکھنے کی میز پر بیٹھا ہوا ہے۔۔۔ اور میں سہما ہوا کھڑا ہوں۔ اب شاید میں رینگ رینگ کر کمرے سے باہر نکل جاؤں اور سانپ میری جگہ لکھنے کا کام کرے گا۔‘‘(۱۰۸)
ان نئے الفاظ کا استعمال یہاں رشید امجد کے منفرد اسلوب کی پہچان بن کر ابھرتا ہے۔رشید امجد کے اسلوب میں جدت بالخصوص نئے اور نامانوس الفاظ کی طرح سے کھپتی ہے کہ ایک طرف وہ فقرے کا جزوِ خاص بنتے ہیں اور دوسری طرف ان الفاظ کی خارجی سطح پر بھی ایک نفاست، نزاکت اور موسیقیت کا تاثر جنم لیتاہے۔
’’وہ جگہ بڑی عجیب ہے ۔بارش کی کنیاں ایک ایک کر کے نیچے اترتی ہیں لیکن جب وہ اوپر دیکھتے ہیں تو آسمان پر دور دور تک بادل نظر نہیں آتے ۔ اس لمحے اندھیرے کی بکل میں سے ایک عورت نکلتی ہے اور کہتی ہے ۔ دے رانجھنا، تو کہاں چلا گیا تھا اور پھر اگلے ہی لمحے وہ عورت آواز کی طرح اندھیرے میں گھل جاتی ہے۔‘‘(۱۰۹)
یہاں لفظ ’’کنیاں کی جگہ ’’بوندیں‘‘استعمال کیا جاتا تو عبارت کے خارجی اور داخلی دونوں عناصر میں نفاست اور نزاکتِ خیال کا دور دو ر تک گزر نہ ہوتا۔’’وے رانجھنا‘‘کہہ کر عورت کا اندھیرے میں گھل جانا ایک حسین خواب کے گمان کو پیدا کرتا ہے جو تھا بھی اور نہیں بھی ہے لیکن روح کے اندر اس کا تاثر اتر جاتا ہے۔ اسی طرح :
’’اس کا انگ انگ لشکنے لگا ہے۔‘‘(۱۱۰)
اسی حوالے سے جب وہ سردی اور رات کا ذکر کرتے ہیں تو یہاں اس کے لئے ایک غیر مانوس لفظ استعمال کر کے اس کی تاثیر اور ظاہری جدت میں اضافہ کر دیتے ہیں۔
’’سردی شو ر مچاتی ساری گلی میں ککلیاں ڈال رہی ہے۔‘‘(۱۱۱)
رشید امجد کے یہاں لفظوں کا یہ استعمال بڑا Originalدکھائی دیتا ہے۔
’’وہ مسکرائی اور اس کے سفید دانتوں کا لشکارا دور تک میرے اندر اتر گیا۔‘‘(۱۱۲)
ان کی فکری نہج نا مانوس الفاظ کی رنگ آمیزی سے ایک نئے اور منفرد اسلوب کا لطف دیتی ہے۔ ایک طرف خیال میں گہرائی اور دوسری طرف طرزِ بیان منفرد ہو جاتا ہے۔
’’ہم کیا ہیں؟منش کیا ہے؟۔۔ہم سب ان پیڑوں کی طرح ایک دوسرے کے پاس ہیں اور تنہا بھی۔ ہم کون ہیں؟ کیا ہیں؟ یہی جاننے کی آرزو میں ہم یاترا کا یہ دکھ سہہ رہے ہیں۔‘‘(۱۱۳)
رشید امجد کے اسلوب میں یہ کیفیت کسی ایک دور تک ہی مخصوص نہیں بلکہ اب تک کے آخری مجموعے ’’ست رنگے پرندے کے تعاقب میں ‘‘ میں بھی یہ انداز بہت نمایاں ہے۔ یوں لگتا ہے کہ وہ زبان کے جذب و تاثیر کی تمام توانائیوں کو آزمانا چاہتے ہیں۔ اس کی وسعت اور بیان کی صلاحیتوں کا اظہار اسی سے ممکن ہے کہ وہ کیسے ،کب اور کہاں تک نا مانوس الفاظ کو موقع محل کی مناسبت سے بطریقِ احسن اپنے اندر کھپا سکتی ہے ۔ افسانہ ’’خالی ہاتھ شکاری اور تیز آہو‘‘میں بھی آکاش، گھنگور گھٹا ، پائل، شیتل پون، چاہ کی لگن، پریم، آگیا دیجئے وغیرہ جیسے الفاظ ملتے ہیں۔
’’اس سمے ، جب رات قدم قدم ندی کی اور بڑھتی چلی آتی ہے۔ اس کا آناممکن نہیں۔‘‘(۱۱۴)
’’یوں لگا جیسے ایک یُگ بیت گیا ہو اور یوں ہی بیٹھے بیٹھے ان کے سروں میں سفیدی ابھر آئی ہو۔‘‘(۱۱۵)
دوسری زبانوں کے نامانوس الفاظ کی کھپت کبھی کبھار ان کے اسلوب کی خارجی سطح سے ملائمت کے عنصر کو مجروح بھی کرتی ہے۔ مثلاً
’’نرم ملائم فرش پھر ڈب کھڑبا ہو جاتا ہے۔‘‘(۱۱۶)
’’لیکن اسی لمحہ زندگی بھرے ہاتھوں نے سوکھے ہونٹوں پر دودھ کے قطرے چوائے۔‘‘(۱۱۷)
ایسے موقعوں پر اسلوب کی خارجی سطح تو ضرور نا مانوس لگنے لگتی ہے لیکن فکری سطح کی ترسیل میں رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی لیکن بعض اوقات کسی مخصوص کیفیت میں الفاظ کا استعمال نہ صرف نا مناسب معلوم ہوتاہے بلکہ قاری کے ذہن میں چونکا دیتے والی کیفیت بھی پیدا ہوجاتی ہے مثلاً
’’حبس زدہ گرم رات نے ان سے پہچان کے سارے زاویے چھین لیے ہیں اور ایک حبس زدہ بے غیرت چپچپاہٹ ان کے سروں پر چپکا دی ہے۔‘‘(۱۱۸)
’’ایک عجیب قسم کی ذلیل اور بے غیرت خاموشی چاروں طرف چوکڑی مارے بیٹھی ہے۔‘‘(۱۲۰)
ایسے نا مناسب الفاظ کا استعمال جو گرچہ کم کم ہوا ہے ۔خاص طور پر اس وقت دکھائی دیتا ہے جب فرد شدید ذہنی دباؤ اور داخلی گھٹن سے دو چار ہوتاہے اور ماحول سے متصادم ہوتے ہوئے جھنجھلاہٹ اور بوکھلادینے والے حالات کا سامنا کرتا ہے۔
شعری وسائل کا استعمال رشید امجد کے یہاں زیادہ تر ستر کی دہائی کی ان کہانیوں میں ملتا ہے جب وہ بطور علامتی افسانہ نگار متعارف ہو چکے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ شدید جذبوں کو قلم بند کرنے کے لئے اس سے بہتر موثر اور جامع طریقہ کار کوئی اور نہیں ہو سکتا۔یہاں شعری وسائل اسی اختصار اور جامعیت کے عنصر کو لے کر ابھرتے ہیں۔ حقیقت تخیل اور فکری گہرائی کے ساتھ گھل مل کر اس شعریت کا تانہ بانہ بنتی ہے۔جذبہ اس کیفیت کا روحِ رواں ہوتا ہے۔
رشید امجد کے یہاں اسلوب کا ایک خاص اور منفرد شعری لب و لہجہ ملتا ہے۔یہ ان کی ذات اور باطنی محسوسات سے الگ کوئی شے نہیں اور نہ ہی قاری کے ذہن پر اوپر سے ٹھونسی گئی کوئی کیفیت ہے۔ یہ ان کے محسوسات کی مختلف صورتیں ہیں جو ہر رنگ اور انداز کا پیرایہ بیان اختیار کرتی ہیں۔بقول مجید مضمر:
’’نثری نظم نما یہ ٹکڑے داخلی خود کلامی ہی نہیں بلکہ ان کیفیتوں کا اظہار ہیں جو کردار کے باطن میں گفتگو کے دوران پیدا ہوتی ہیں اوروہ اپنے کہے ہوئے لفظ کے پیچھے چھپی ہوئی ان کہی باتوں کا احتساب کرنے لگتا ہے ۔ ‘‘ (۱۲۱ )
اس ضمن میں رشید امجد لکھتے ہیں:
’’شعری وسائل کا استعمال تو کم، زیادہ ہر نئے افسانہ نگار نے کیا ہے لیکن میرے یہاں وہ تخلیق عمل کا ایک حصہ بن کر آتے ہیں۔‘‘(۱۲۲)
اور یہ حقیقت ہے کیونکہ شعری وسائل جہاں بھی بروئے کار لائے گئے ہیں وہاں جذبے کی شدید نوعیت، اس کا عمل یار دِ عمل ظاہر کرنا بھی مقصود ہوتا ہے۔یہ ایک دلکش اور موثر پیرایہ بیان بھی ہے۔
’’آؤ !ہماری بانہیں تمہارے لئے ترس گئی ہیں۔
تمہارے لیے مدتوں سے بے کل ہیں۔
ہماری آنکھیں تمہیں پر نام کہہ رہی ہیں۔
آؤ!یہ سب کچھ تمہارے لئے ہے۔
اے آنے والو!آؤ۔
یہ عظیم دھرتی تمہیں پکارتی ہے۔
میری ماں، میری دھرتی۔ میں بڑبڑاتا ہوں۔میرا ساتھی حیرت سے دیکھتا ہے۔‘‘(۱۲۳)
’’اکی موت پر ایک کہانی ‘‘میں بھی نثر اور شاعری کا یہ امتزاج موجود ہے۔افسانہ’’نارسائی کی مٹھیوں میں‘‘، ’پھسلتی ڈھلوان پر نروان کا ایک لمحہ‘‘ ، ’’لا=؟‘‘اور ’’ تیز دھوپ میں مسلسل رقص‘‘میں نظم اور نثر کی امتزاجی کیفیت کا حسن اور معنوی گہرائی منفرد ہے۔’’نارسائی کی مٹھیوں میں ‘‘ کا آغاز ہی نظم کے پیرائے سے ہوتاہے۔
’’ہم جو گھنے سیاہ درختوں کی ریشمی ملائم چھاؤں میں
سبز مخملی گھاس پر
خود کو جاننے،پانے کی آواز میں
اپنی سوکھی انتڑیوں کواپنی ننگی ہڈیوں پر لپیٹتے ہیں۔
ہم بھی کیا ہیں؟ ‘‘(۱۲۴)
ذات کی شناخت، اس کی آرزو، زندگی کے داخلی اور خارجی پہلو کی امتزاجی کیفیت سے اجاگر ہوتی ہے۔یہی انداز’’پھسلتی ڈھلوان پر نروان کا ایک لمحہ‘‘میں نظر آتا ہے۔
’’لیکن یہ میں ہے کیا؟کیا میں ہوں؟
موت زردی بن کر سرسرارہی ہے۔
وہاں، کیا میں ہوں؟
کیا میں ہوں؟‘‘(۱۲۵)
اس انداز سے عبارت میں اختصار اور جامعیت کا عنصر بھی پیدا ہوتا ہے۔زمانہ، زندگی ، کائنات اور حیات کے فکری نظام سے متعلق رشید امجد کئی پرت کھول دیتے ہیں۔اقرار و انکار کی کئی گتھیاں الجھتی اور سلجھتی نظر آتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ سماجی زندگی کے بارے میں بلیغ اشارے بھی موجود ہیں۔ چیل ، مگرمچھ اور ایسے ہی اور استعارے اپنے عہد کے جبر اور صاحب اختیار طبقے کو بے نقاب کرتے ہیں۔
’’آؤ میں تمہیں منافقت کے دودھ میں گندھی ہوئی روٹی کھلاؤں اس گندے جوہڑ کا پانی پلاؤں جہاں لمحہ لمحہ رنگ بدلنے والے مگرمچھ رہتے ہیں اب تم ہی بتاؤ، میں کہاں تک خود کو بچائے رکھوں۔‘‘(۱۲۶)
رشید امجد اس حوالے سے لکھتے ہیں:
’’میں نے شعری وسائل کو معنوی دبازت پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا ہے اور انہیں تخلیقی سطح پر اپنے اسلوب کا حصہ بنایا ہے۔۔۔۔میرے تہہ دار شعور اور انکشافِ ذات کے گہرے مطالعے اور بیان کے لئے ان کا استعمال ضروری تھا۔‘‘(۱۲۷)
اس ضمن میں پروفیسر عرفان صدیقی رقم طراز ہیں:
’’رشید امجد کے اسلوب کی ایک بہت ہی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں شاعری کے تمام لوازمات موجود ہیں ۔ اگر وہ اپنے افسانوں کے مجموعے’’پت جھڑ میں خود کلامی‘‘کو نثر ی نظموں کا مجموعہ کہہ دیتا تو ہم آنکھیں بند کر کے ایمان لے آتے اور رشید امجد کو معتبر شاعر تسلیم کر لیتے۔ ا س کے ہاں لا تعداد جملے ڈھلے ڈھلائے مرصع مصرعوں کی طرح ہیں جن میں عروض کی بندشیں تو نہیں لیکن شعر کے سارے رنگ اور انگ موجود ہیں۔‘‘(۱۲۸)
لیکن یہ مرصع جملے نہ تو محض حسنِ زبان اور آرائشِ عبارت ہیں نہ ہی شعوری کوشش کا شاخسانہ ۔یہ تخلیق کی فطری روہے جو جذبہ ، خیال، اظہار اور تاثر کے خمیر میں گندھی ہوئی ہے۔ بقول ڈاکٹر مجید مضمر:
’’زبان و بیان کا یہ تخلیقی ڈھانچہ شعری اظہار کے قریب ہے لیکن اس کے باوجود ان کا افسانہ بیانیہ کے عنصر سے منحرف نہیں ہوتا۔یہاں زبان واقعہ پر اتنی حاوی نہیں کہ زبان ہی مقدم دکھائی دے۔زبان واقعہ کے تحت چلتی ہے۔۔۔۔‘‘(۱۲۹)
رشید امجد کے اسلوب کی ایک منفرد پہچان اس حوالے سے شعری عناصر اور بیانیہ کا امتزاج ہے۔ جہاں معنی و مفاہیم اثر و تاثیر کی مٹی میں گندھے ہوئے نظر آتے ہیں۔
’’تلمیح‘‘رشید امجد کے اسلوب کا ایک اور اہم پہلو ہے اور اس حوالے سے اپنی منفرد پہچان رکھتی ہے۔ یہ تلمیح ان کے افسانے کے داخلی اور خارجی دونوں حوالوں سے ظاہر ہوتی ہے۔ یہ نہ تو عبارت کے خارجی حسن میں اضافے کے لئے کوئی شعوری کوشش ہے اور نہ کسی کی تقلید۔ البتہ اس روایت سے اس کا تعلق ضرور جُڑا ہوا ہے جو مشرقی ادب کی مخصوص پہچان ہے۔یہ تلمیحاتی سطح ان کے افسانے میں ضرورت کے تحت کہیں جامد ہے اور کہیں سیال، اورکہیں مخصوص ہوا کے جھونکے کی مانند محسوس ہوتی ہے مگر اپنی وضاحت دے کر ۔تلمیح درحقیقت یہاں علامتی سلسلوں کی ایک اہم کڑی ہے۔انہوں نے اس کے ذریعے اپنے تخیل اور زندگی کے نت نئے گوشوں کو بے نقاب کیا ہے۔اس سے ابلاغی سطح کو مزید تحریک ملتی ہے۔ افسانہ’’ہابیل اور قابیل کے درمیان ایک طویل مکالمہ‘‘بذاتِ خود ایک تلمیح ہے۔ اس کے حوالے سے رشید امجد نے ایک مذہبی واقعے کی اصل صداقت کو قائم رکھا ہے اور اس کے حوالے سے اپنے عہد کے کئی حقائق کی ترجمانی بھی کی ہے۔کئی اخلاقی، روحانی قدریں جو وقت کی دھول میں گم ہوتی جارہی ہیں۔ اس حوالے سے ان کی عکاسی بھی ملتی ہے۔
’’نام اور چہر ہ تو دودھ کے رشتوں سے ہے اور تم یہ رشتے کاٹ رہے ہو۔تو تمہارا کوئی نام، کوئی چہرہ نہیں۔‘‘(۱۳۰)
’’یہ کون تھا؟۔۔گھر جا رہا ہے(بیوقوف گھر توآج کل کر بلا کا میدان ہے)ساحل تو بہت دور ہے۔‘‘(۱۳۱)
یہاں تلمیح ہوا کے جھونکے کی طرح گزر جاتی ہے لیکن تمام وضاحتیں بھی عیاں ہوجاتی ہیں۔افسانہ’’بے پانی کی بارش‘‘جس کا آغاز ہی ایک حدیث شریف سے ہوتاہے۔تلمیح کی کئی صورتوں سے یہ اسلوب مزین ہے ۔ ایک مذہبی قصے کی بازگشت میں دوسرے قصے کی بازگشت مکمل طور پر سنائی دیتی ہے۔حضرت یوسفؑ کی قید کا زمانہ ، خواب،ان کی تعبیر،بادشاہ ، سپاہی تمام علامتیں اور حوالے نمایاں ہیں۔اس فرق کے ساتھ کہ بادشاہ کی جگہ انسپکٹر نے لے لی ہے۔خوابوں کا جو تسلسل اس پوری کہانی میں بکھرا ہوا ہے ۔ یہ تلمیح کی ایک سیال صورت کہی جا سکتی ہے۔یہ سات خواب ہیں جن کی تعبیریں رشید امجد کے عہد کی زندہ علامتیں بن رہی ہیں۔ان خوابوں میں اچانک ایک کشتی کا ذکر، اس میں سوراخ ہونا، ہلاکت، لاشیں۔ذہن از خود حضرت خضرؑ کے اس واقعہ کی جانب پلٹتا ہے جب حضرت موسیٰؑ کی ہمراہی میں انہوں نے کشتی میں سوراخ کردیا تھا۔اس کیفیت کی عکاسی اس طور ملتی ہے:
’’کشتی کے پیندے میں سوراخ ہو چکا تھا اور پانی رفتہ رفتہ بہت ہی آہستگی سے اندر آرہا تھا۔ پھر بپھرتا ، ٹھاٹھیں مارتا دریا، یک دم خون کے دریا میں بدل گیا۔کشتی ٹوٹ کر دوحصوں میں بٹ گئی۔چاروں طرف لاشیں ہی لاشیں ۔۔۔۔‘‘(۱۳۲)
اور اس افسانے میں تلمیح کی ایک جامد صورت بھی دکھائی دیتی ہے جو رشید امجد کے عہد کے تلخ حقائق کی علامت بن کر ابھر رہی ہے۔
’’قوموں کے عروج و زوال کی کہانیاں تاریخ کے صفحات سے اڑاڑ کر اس کے کمرے کی دیواروں پر اپناآپ دہراتی رہیں۔ایک شخص کے بانسری بجانے کی پاداش میں سارے شہر کو جلنا پڑا تھا لیکن یہاں تو پوری قوم ہی بانسری بجانے میں محو تھی۔’’(۱۳۳)
یہاں تلمیح کی بنیاد پر اپنے عہد کی عکاسی نیروؔکی علامتوں کے ذریعے بخوبی کی گئی ہے۔ رشید امجد اپنے اس طریقہ کار کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’کوشش اگر شعوری ہو بھی تو اس کے پیچھے ایک لا شعوری رویہ ضرور موجود ہوتا ہے جو میرے اسلوب کو روایت سے بھی جوڑتا ہے اور اسے نیا پن بھی عطا کرتا ہے۔‘‘(۱۳۴)
ان کے ہاں تلمیح کا ایک اور انداز بھی ملتا ہے۔افسانہ’’لا= ؟‘‘تلمیح کے گویا ایک چھینٹے سے شروع ہوتاہے لیکن یہ چھینٹا اتنا تیز اور شدید ہے کہ پھر پوری کہانی میں اس کا پتہ نہ ملنے کے باوجود اس کی نمی محسوس ہوتی رہتی ہے اور کہانی اس نمی میں گندھتی چلی جاتی ہے۔تلمیح کا وجود صرف دوحرفی سطح پر ہی رہتاہے اور تمام موضوع اور خیال اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔صرف کہانی کا آغاز اور انجام تلمیح کی کھونٹی سے بندھا ہوا ہے۔آغاز میں
’’اس نے اپنے آپ کو سزا دی ہے کہ زہر کا پیالہ پی لے یا جلا وطن ہو جائے۔‘‘(۱۳۵)
اور آخر میں یہ سطر
’’۔۔۔اس نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ زہرکا پیالہ پی لے۔ یا پھر جلا وطن ہو جائے۔‘‘(۱۳۶)
اس آغاز و انجام کے درمیان رشید امجد کی سوچ ذات و کائنات کے مختلف النوع فکری پہلو لئے ہوئے ہے جو اس تلمیح کے علامتی سلسلوں سے بندھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح اشارۃً ، وضاحتاً کہیں ساکت و جامد اور کہیں سیال مادے کی صورت تلمیح کا وجود ملتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ رشید امجد کا عہد اپنی بھر پور عکاسی کے ساتھ موجود ہے۔
’’سارے بچے اب اسی طرح بہتے ہوئے یہیں آئیں گے کہ اب ساری مائیں یوں ہی بچوں کو نالیوں میں بہا ئیں گی۔۔۔دریا تو سارے خشک ہو گئے ہیں اور شہر میں قتلِ طفلاں کی منادی ہو چکی ہے۔‘‘(۱۳۷)
یہ تلمیح حضرت موسیٰؑ کی ولادت اور پرورش کا حوالہ ہے۔ جبکہ ’’ریزہ ریزہ شہادت‘‘ میں منظر کر بناک حالت میں گھوڑے کے مرنے کا ہے۔وہ اور تتلی ظلم کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔شکاری، شکار گاہ ، تماشائی سب کے سب رشید امجد کے عہد کے زندہ حوالے اور علامتیں ہیں لیکن تلمیح خود کربلا اور گھوڑے کی علامت بن جاتی ہے۔ یہاں تلمیح کی کرافٹنگ بھی ملتی ہے۔
’’اس کی آنکھوں کی کربلا میں بھوکے پیاسے خیمے ابھرآئے ۔پیاسے خیموں سے گھوڑا باہر نکلا اور اپنے سوار کو لے کر خون خون میدان میں قدم قدم آگے بڑھنے لگا۔‘‘(۱۳۸)
مجموعہ ’’پت جھڑ میں خود کلامی‘‘میں چونکہ فکری دبازت در آتی ہے ۔ یہاں تلمیح کا بھی ایک نیا انداز نظر آتاہے۔پہلے کہانی میں تلمیح کا حوالہ تو موجود ہے۔ اب تلمیح جامد ،ٹھوس اور نہ صرف مکمل طور پر واضح ہے بلکہ خیال اور سیال مادے کی صورت میں تمام افسانے کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے ۔ کہیں اس کی پرتیں بڑھتی جاتی ہیں اور تلمیح در تلمیح در تلمیح کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس سے معنوی گہرائی اور اس کی وسعت میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ’’تماشا عکسِتماشا‘‘ میں کہانی کا آغاز ہی اس طور ہوا ہے۔
’’اس نے زہر پی لیا ہے اور اب موت کا انتظار کر رہا ہے۔‘‘(۱۳۹)
یہ تلمیح محض اشارہ ہے ۔سقراط کا حوالہ علامت ہے اور آگے چل کر اس کہانی میں لکھتے ہیں:
’’جناب !آپ واپس چلے جائیں۔کیوں؟شہر کے لوگ نہیں چاہتے کہ آپ ان کے پاس آئیں۔۔۔لیکن کیوں؟انہوں نے تو خود ہمیں خط لکھ کر بلوایا ہے۔ اب ان کے دل کیسے بدل گئے ۔دل تو اب بھی ان کے آپ کے ساتھ ہیں لیکن تلواریں۔۔۔نیزے پر ٹنگا سر آنکھیں کھولتا ہے۔ مسکراتا ہے۔۔۔۔‘‘(۱۴۰)
تمام منظر واقعہ کربلا اور حضرت امام حسینؑ سے متعلق ہے اور چند سطور بعد ہی تلمیح کا رخ حضرت موسیٰؑ کے واقعہ کی طرف مڑ جاتا ہے۔
’’مروڑی ہوئی گردنوں والے بچے پنگھوڑوں میں جوان ہوتے ہیں۔طوفانی اندھیری رات میں ندی کی لہروں پر تیرتی ٹوکری میں سلامت گردن والا بچہ آپ ہی آپ مسکراتا ہے۔‘‘(۱۴۱)
یہاں تلمیح کے تینوں روپ تاریخی صداقتوں کے حوالے سے اپنے عہد کو بھی جبر کی شدت سے نکلنے کا ایک راستہ دکھا رہے ہیں اور اس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ ظلم کبھی دیر تک نہیں پنپ سکتا۔
افسانہ’’منجمد موسم میں ایک کرن‘‘میں تلمیح محض ایک سرسراہٹ کے انداز سے گزر جاتی ہے گویا یہ اسلوب کا وہ پہلو ہے جو موضوع میں اپنی ضرورت کے مطابق اپنا حصہ ڈالتا ہے۔تلمیح ان کے ہاں روایت سے بھی منسلک ہے اور ان کے اپنے عہد کی ترجمانی میں بھی شریک ہے۔ مہدی جعفر لکھتے ہیں:
’’رشید امجد اپنے افسانوں میں مذہبی تلمیحات کا استعمال دو سطحو ں پر کرتے ہیں۔ایک سطح قدیم اور اوریجنل ہوتی ہے اور دوسری سطح عصری ہوتی ہے۔تلمیح جب عصری سطح کی نباضی کرتی ہے تو اپنی شکل بدل لیتی ہے۔‘‘(۱۴۲)
یہاں مہدی جعفر صاحب تلمیح کی جس عصری سطح کی بدلی ہوئی شکل کا ذکر کرتے ہیں اسے ہم تلمیح کی تیسری اور غیر متعین شدہ سطح کا نام دے سکتے ہیں جو اپنی اوریجنل اور عصری دونوں صورتوں کے حوالے سے اپنے عہد کو آنے والے وقت میں ایک توانا اور مثبت اجتماعی طرزِ احساس سے وابستہ کر رہی ہے۔مثلاً
’’اس نے زہرکا پیالہ پی لیا ہے۔‘‘(۱۴۳)
’’ٹوکری میں سلامت گردن والا بچہ آپ ہی آپ مسکراتا ہے۔‘‘(۱۴۴)
’’نیزے پر ٹنگا سر آنکھیں کھولتا ہے۔‘‘(۱۴۵)
اور ایسی ہی کیفیت ’’منجمد موسم میں ایک کرن‘‘کے اندر بھی موجود ہے۔
’’تیر پر ٹنگا سر آنکھیں جھپکاتا ہے۔۔۔مجھے تو ابھی اپنا کشف ہی نہیں ہوا۔‘‘(۱۴۶)
زہر کے پیالے کو پینے والے لوگ یقینا اپنے عہد کے ناخوشگوار حالات کو شکست بلکہ دائمی شکست سے ہمکنار کرتے ہیں۔ اسی طرح سر کا نیزے پر چڑھنے کے بعد بھی مسکرانا اور کہنا کہ کشف اور اس کے اسرار بھی باقی ہیں۔گویا تاریکی میں زوال پذیر فرد کے لیے نئی بشارتوں کے در کھل رہے ہیں ۔اسے ان حوالوں سے نئی توانا زندگی کی نمو بھی مل رہی ہے۔
رات،تاریکی اور دھندکے حوالے سے علامتی سلسلہ ستر کی دہائی کے ان افسانوں میں آغاز پاتا ہے جو اس دہائی کے آخر آخر میں لکھے گئے۔ ابتدائی افسانوں میں رات، تاریکی اور دھند کے الفاظ زیادہ تر علامتی سطحوں کے بغیر ہی استعمال ہوئے ہیں۔گویا لفظ رشید امجد کے فکری سفر کے ساتھ ساتھ ارتقا پذیر رہتے ہیں لیکن ابتدائی دور کی کہانیوں میں بھی یہ الفاظ بیانیہ کے ساتھ ساتھ فکر کی اکہری سطح پر متحرک ضرور نظر آتے ہیں۔
’’باہر سے خوب صورت نظر آنے والی چیزیں اندر سے کالی ہوتی ہیں۔اگر انسان سچ بولنے لگے تو زندگی طوق بن جائے۔‘‘(۱۴۷)
’’تاریکی اب پوری طرح دم توڑ چکی تھی۔حلوائی نے دکان کھولتے ہوئے بندو چاچا کی طرف دیکھا۔ جو نل کی منڈیر پر بیٹھا سوچ میں گم تھا۔۔۔‘‘(۱۴۸)
’’اس نے سر اٹھا کر مجھے دیکھا۔ہمارے ننگے جسموں کے گرد لپٹی ہوئی دھند اتر چکی تھی اور ہم سب ایک دوسرے کی آنکھوں کی عدالت میں ننگے کھڑے تھے۔۔۔‘‘(۱۴۹)
ان مخصوص الفاظ اور ان کے علامتی سلسلوں کا بھی اپنا ایک سفر ہے ۔خارج سے داخل کی طرف:
’’روشنی کی یہ لاغر کرنیں ہر رات یوں ہی مجھ سے لپٹ جاتی ہیں اور مجھے بے بس کر کے اس کے پاس لے جاتی ہیں۔‘‘(۱۵۰)
’’روتے روتے میری ہچکی بندھ جاتی ہے تو وہ میری توجہ تاریکی میں ڈوبی ہوئی زخمی سڑک کی طرف مبذول کرا دیتا ہے۔‘‘(۱۵۱)
’’دھیرے دھیرے جب چیزوں کا زردی مائل دھند لاپن گہرا ہونے لگا تو اس نے ایک بار پھر آنکھیں پھاڑپھاڑ کر چیزوں کو پہچاننے کی کوشش کی۔۔۔۔‘‘(۱۵۲)
’’میں کچھ دیر تاریکی میں اسے نظروں سے ٹٹولتا رہتا ہوں۔۔۔‘‘(۱۵۳)
رفتہ رفتہ اس حوالے سے ان کے علامتی سلسلوں میں نیا پن آتا جاتا ہے۔ مجموعہ’’گرفت‘‘میں مجموعی طور پر ان علامتوں میں نئی معنویت در آتی ہے جو اپنے وجود میں جامد بھی ہے اور متحرک بھی۔
’’یہ جانے کتنی ویں رات ہے کہ اس کا جسم اسے بستر کی گود میں یوں اکیلا چھوڑکر باہر نکل گیا ہے۔۔۔۔۔آدھی رات کو وہی چیل اسے آوازدیتی ہے۔‘‘(۱۵۴)
(یہاں رات ایک علامت ہے۔ ایک کیفیت ہے۔شعور سے لا شعور میں جانے کی)
’’میری دادی کہا کرتی تھیں۔ آدمی جس روز پیدا ہوتا ہے اسی روز اس کی قبر بھی کھد جاتی ہے اور ہر رات کو قبریں اپنے اپنے آدمی کو پکارتی ہیں۔‘‘(۱۵۵)
(یہاں رات موت سے متعلق ایک فکر آمیز سوچ کی علامت بن رہی ہے۔)
’’پتھروں کے یہ پھوڑے اس کے سارے جسم پر پھیلے ہوئے ہیں اور دردا س کی پور پور میں رینگ رہا ہے۔یہ رات ،اذیت کی یہ رات۔‘‘(۱۵۶)
(داخلی محسوسات میں شدت کے حوالے سے رات اذیت کی علامت ہے۔)
’’لیکن پیچھے تو گہرا اندھیرا ہے اور آگے دھند ہی دھند ۔ اس دھند میں سنبھل سنبھل کر، قدم قدم چلتا، وہ گھوم پھر کر اس غم آلود مسکراہٹ کی چار دیواری میں لوٹ آتا ہے ۔ کبھی تو یہ مسکراہٹ غم کی قید سے آزاد ہو گی۔‘‘(۱۵۷)
یہاں دھند اور اندھیرے سے نکلنے کی فردسعی کرتا ہے۔یہاں دھند کی وہ صورتِ حال نہیں کہ فرد اپنی بصیرت،بصارت اور ہمت سے ہی محروم ہوجائے لیکن یہ سعی جزوقتی نظر آتی ہے کیونکہ رفتہ رفتہ دھند کی چادردبیز ہوتی جاتی ہے اور اب تک کے ان کے آخری مجموعے’’ست رنگے پرندے کے تعاقب میں‘‘دھند نہ صرف موجود ہے بلکہ چھائی ہوئی کیفیت میں ملتی ہے۔ دھند کایہ پھر سے آغازِ سفر قاری کے ذہن کو تحریک دیتا ہے کہ کہیں پھر سے افسانہ نگار کی کوئی اور نئی فکری جہت تو اس حوالے سے ابھرنے کی سعی نہیں کر رہی؟کیونکہ دھند کے بعد سویرا بڑا چمکدار اور روشن ہوتا ہے۔کہیں اسی روشنی کی تلاش تو انہیں مقصود نہیں؟یہاں دھند سیاسی حوالوں اور معاشرتی رویوں کے منفی زاویوں کا حوالہ بن کر ابھررہی ہے۔افسانہ میں دھند کا موضوع اور اسلوب بہت وسیع اور گہرا ہو جاتا ہے۔ یہاں دھند ایک منظر کو تشکیل دے رہی ہے۔
’’دہلیز پر دھند اسے اپنی بکل میں لینے کے لئے موجود تھی۔۔ بس سٹاپ تک پہنچتے پہنچتے لگا وہ بھی دھند کا ایک حصہ بن گیا تھا۔فٹ پاتھ پر لوگ سایوں کی طرح لگ رہے تھے۔ دورآتی بس ایک ٹمٹماتی روشنی سی لگتی تھی ۔ ۔ ۔ بس ایک قطار سی تھی جو بس کے رکنے پر اپنی جگہ سے حرکت کرتی۔۔۔دھند اپنی لمبی زبان نکال کر چہروں کو چاٹ رہی ہے۔‘‘(۱۵۸)
بعض اوقات دھند ایک اجتماعی بے حسی کا انداز اختیار کر لیتی ہے اور اس حوالے سے معاشرتی رویوں پر رشید امجد کے طنز کا ایک منفرد انداز بھی ابھرنے لگتا ہے۔
’’دھند گہری ہو جائے تو چیزوں کے درمیان ایک خاموش سمجھوتہ تو ہو ہی جاتا ہے۔‘‘(۱۵۹)
اب دھند محسوساتی سطح سے نکل کر ایک پیکرِ مجسم کی صورت معاشرتی زندگی میں دخیل ہے۔
’’کھانا کھا کر کچھ دیر پڑھنے کی عادت تھی لیکن باہر پھیلی دھند نے جواب دروازے اور کھڑکیوں پر دستک دے رہی تھی۔ اسے ڈرا سا دیا۔‘‘(۱۶۰)
افسانہ ’شہر بدری‘‘میں دھند پھر خارجی جبر اور داخلی روحانی کیفیات کے حوالے سے ابھر ی ہے ۔ یہاں رشید امجد انسان کی داخلی اور خارجی دو دنیاؤں کا موازنہ کرتے ہیں جس سے کبھی مرشد کا حوالہ ابھرتا ہے اور کبھی سرمئی دھند کی صورت نمودار ہوتی ہے۔یہاں دھند کا داخلی ؍روحانی حوالہ زیادہ قوی اور واضح ہے۔
’’سرمئی دھند کا اسرار اجنبی لگتا ۔ایک دھند جس میں مرشد بھی معدوم ہوتا جارہا تھا۔۔۔سرمئی دھند میں چلنے کا مزہ تو آتا لیکن باہر کی تیز روشنی نے آنکھوں کو اس طرح خیرہ کر دیا کہ سرمئی دھند میں گزرے چند لمحے، بس لمحے کی یاد ہی رہ جاتے ۔۔۔جھولا کبھی ایک طرف ہوتا کبھی دوسری طرف ۔۔۔میں کیا کروں؟۔۔۔دنیا داری کا سلیقہ نہیں۔درویشی کا ظرف نہیں۔۔۔‘‘(۱۶۱)
مجموعی طور پر دھند موضوع بھی ہے اور اسلوب بھی۔ یہ خارج میں بھی ہے اور داخل میں بھی بلکہ خارج سے داخل کا سفر یہ بتدریج طے کرتی ہے ۔پھر یہ آفاقی اور ابدی عنوانات اور سوالات کی آماجگاہ بن جاتی ہے۔اس کا منتہائے سفر یہی ایک نکتہ ہے جہاں سے پھر ایک نئے سفر کے نقوش ابھرنے لگتے ہیں۔رشید امجد کا اس ضمن میں کہنا ہے:
’’نیا افسانہ حقیقت نگاری نہیں بلکہ وہ اس دھند میں سے نکلتا ہے جو ظاہری حقیقت کے پیچھے ہے۔اس دھند اور اس میں چھپی پُر اسرار دنیا تو عام شخص نہیں دیکھ سکتا۔اصل حقیقتیں یا سچائیاں اس سے مختلف ہیں جو ہمیں بظاہر دکھائی دیتا ہے۔۔۔روشنی سے دھند اور اثبات سے نفی کا یہ سفر بہت اہم ہے ۔ اس لئے کہ ایک بار نفی کرنے کے بعد ہی اثبات کا اثبات ہو گا اور بے معنویت کے نقطے سے معنویت کا اشارہ ملے گا۔۔۔‘‘(۱۶۲)
اور اس حوالے سے بھی یہ واضح ہوتاہے کہ رشید امجد نے دھند کی خارجی اور داخلی جہت، معنویت اور اس کے علامتی سلسلوں کو ممکنہ حد تک اپنی کہانیوں میں برتا ہے۔رشید امجد کے اسلوب میں لفظیات کا اپنا ایک نظام ہے۔ہر جذبہ، انسانی رویہ اس نظام کے تحت خود بخود اپنے اسلوب کی تشکیل کرتا ہے۔ ابتدائی کہانیوں میں جہاں زندگی کے حقیقی واقعات کو قلمبند کیا وہاں انسانی رویے ، محسوسات اپنے حقیقی تاثر اور بیانیہ انداز میں نظر آتے ہیں۔
’’اس نے میرے ساتھ یہ رعایت ضرور کی کہ دوسرے لوگوں کی طرح میرے پیچھے ٹین نہیں باندھا تھا اور سچی بات یہ ہے کہ میں ٹین بندھوانے سے ڈرتا بھی تھا۔‘‘(۱۶۳)
انسانی رویہ خارجی حالات اور داخلی محسوسات کے تصادم اور تغیر و تبدل سے ہر لمحہ بدلتا رہتا ہے۔اس کی یہ بدلتی صورتیں رشید امجد کے اسلوب کی بھی بدلتی صورتیں ہیں۔ کومل جذبے اسلوب کی نزاکتوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں اور جہاں فکر کی آمیزش ان میں گھلنے ملنے لگتی ہے۔ وہاں اسلوب کا رنگ جد اہو جاتا ہے۔
رشید امجد انسانی محسوسات کے بدلتے رنگوں کو خارج اور داخل ددنوں حوالوں سے پیش کرتے ہیں۔دونوں کی متوازی لہریں اسلوب میں جدت اور تاثیر بھر دیتی ہیں۔ انتظار کی کیفیت کو وہ اس حوالے سے اس طور بیان کرتے ہیں:
’’بس کے آتے ہی اس کی آنکھوں میں جو ایک نامعلوم سی چمک پیدا ہوتی ہے ۔بجھ جاتی ہے اور یوں لگتا ہے جیسے وہ دیکھ رہا ہے لیکن یہ آنکھیں کسی انسانی چہرے پر نہیں کسی مجسمے پر لگی ہوئی ہیں جس پر کوئی تاثر، کوئی حیرت، کوئی خوشی نہیں ۔ یہ کیفیت اس وقت تک رہتی ہے جب تک اڈہ خالی رہتا ہے۔جونہی کوئی بس اڈے میں داخل ہوتی ہے ۔ اس کا چہرہ یکدم جاگ اٹھتا ہے اور بیک وقت کئی تاثر اس پر انگڑائیاں لینے لگتے ہیں۔‘‘(۱۶۴)
انسان کے وہ داخلی محسوسات جن کی واضح شکل اور ترتیب نہیں ہوتی بلکہ اندر ہی اندر ایک کشاکش جاری ہوتی ہے۔پانے نہ پانے کی درمیانی حالت۔ ابتدائی دور کی کہانیوں میں اس کی عکاسی میں ان کا اسلوب بہت اثر انگیز ہے۔
’’اسے لوگوں کے ہجوم میں دفن کر دیا جاتا۔جب وہ لوگوں کے اس ملبے میں پوری طرح دب جاتا تو کوئی چیز دبے پاؤں چلتی۔ اس کی طرف بڑھتی اور اس کے جسم کی دیواروں پر دستک دیتی ۔اس پر رینگنے لگتی۔‘‘(۱۶۵)
انسان کے داخلی نازک محسوسات ، محبت ، جذبے ، بے نام عشق، اندر ہی اندر سلگنے کی کیفیت ، اذیت ان کے اسلوب میں بے پناہ رنگا رنگی اور اثر وتاثیر بھر دیتی ہے۔یہاں اسلوب اپنے حوالے سے بھی دل میں گدگداہٹ کی نزاکتوں کو جنم دیتاہے۔
’’میں چیئرنگ کراس کے فٹ پاتھ پر کھڑا بھیگ رہا ہوں اور وہ اپنی سہیلی کے ساتھ گاڑی میں بیٹھی مجھے دیکھ کر ہنس رہی ہے۔ دو سال یوں بیت گئے۔درختوں پر بُور آئے، پھول کھلے اور مرجھا گئے۔‘‘(۱۶۶)
یہ گمنام سا رومانس ہے جس کا کوئی عنوان نہیں۔ رُکے رُکے جذبات ، کہنے نہ کہنے کے درمیانی مرحلے،ذات پات اور طبقاتی تقسیم کی باتیں، سب عوامل کی عکاسی میں اسلوب منفرد ہے۔
’’ورانڈے میں کتابوں کے بہانے کئی باتیں،کہ جن کا کوئی بھی مقصد نہیں تھا۔ مسائل ،جن کا کوئی حل نہیں ہے۔ذاتوں کے فرق سے طبقوں کے فرق تک یہ مسائل حل نہ ہونے والے تھے۔یا شاید ہم نے سنجیدگی سے انہیں حل کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ ہماری ملاقاتیں تو انتظار کے اداس گیتوں سے شروع ہوتی تھیں اور اداسی اور جدائی کے نہ ختم ہونے والے سلسلوں پر جا رکتی تھیں۔‘‘(۱۶۷)
اور پھرا ن محسوسات ، شناسائی میں زمانے حائل ہوجاتے ہیں اور پھر!
’’وہ خاوند کی کسی بات پر کھلکھلا کر ہنسی ۔میں نے ذرا سا گھوم کر دیکھا۔ کتنی خوش ہے؟ایک لمحہ کے لئے میرے اندر نفرت کا الاؤ بھڑکا لیکن دوسرے ہی لمحے میں نے اپنی اس کمینگی پر خود کو لتاڑا۔ اس کی خوشی پر خوش ہونے کی بجائے میں کیا سوچ رہا ہوں۔‘‘(۱۶۸)
افسانے کا عنوان، موضوع دونوں اسلوب کی اکائی اختیار کر رہے ہیں۔ جذبات کی نزاکتیں اسلوب میں بھی نزاکت اور نفاست کا رنگ بھر دیتی ہیں۔صرف محسوسات ہی خوشبوؤں کی مانند ابھرتے ہیں۔
’’واپسی پر اس کی خوشبو ہوسٹل تک میرے ساتھ آئی اور کئی دنوں تک میرے وجود میں سرسراتی رہی۔‘‘(۱۶۹)
’’وہ چپ رہی ،میں بھی چپ رہا۔ خاموشی گہری ہو گئی۔شاید زمانے بیت گئے۔‘‘(۱۷۰)
محسوسات کی وہ سطح جہاں لاشعور اور تحت الشعور بھی دخیل ہونے لگیں۔وہاں صورتحال مختلف نظر آتی ہے۔ اسلوب میں تہہ داری کا عنصر بڑھ جاتا ہے۔
’’دستک کی دھیمی دھیمی صدا آہستہ آہستہ تیز ہو رہی تھی۔اس کی آنکھوں میں حرکت ہوئی۔اب اس کے جسم میں صرف آنکھیں ہی متحرک تھیں۔‘‘(۱۷۱)
افسانہ’’آئینہ تمثال دار ‘‘میں انسانی محسوسات کی ایک دنیا آباد ہے۔گذشتہ زندگی کے ہلکے ہلکے چھینٹے ، آسودگی،نا آسودگی کا تصور، یادداشتیں منظر ناموں کی صورت موجود ہیں۔ محسوسات کی مختلف صورتیں ہیں۔ انسانی رویوں کی مختلف شکلیں ہیں جو اسلوب کے نت نئے پیرائے اختیار کرتی ہیں۔ کہیں پیرایہ بیان تمثیلی ہے اور کہیں بیانیہ۔
’’گوہرِ آبدار بننا تو بہت آسان ہے۔ پتھر رہ کر گوہرِ آبدار کی تمنا کرنا کتنا مشکل ہے۔‘‘(۱۷۲)
’’تمنا ہے کہ ٹمٹماتی شمع کی طرح نہ بجھتی ہے نہ کھل کر جلتی ہے۔‘‘(۱۷۳)
’’یہ وہ دن تھے جب اس کی خواہشیں قدم قدم پر دم توڑتی تھیں۔ چیزیں اور لوگ آنکھیں مارتے، اس کے پاس سے گزر جاتے تھے لیکن نہ وہ کسی چیز کو لے سکتا تھا نہ چھو سکتا تھا۔بس دیکھتے رہنا ہی اس کا مقدر تھا۔‘‘(۱۷۴)
’’وہ ہمیشہ مجھے ایسی نظروں سے دیکھتی تھی جیسے میرے سوال کی منتظر ہو ۔میں اس سے اپنا آپ واپس مانگنا چاہتا تھا لیکن لفظوں نے کبھی میرا ساتھ نہ دیا۔ بوند بوند حرف اکھٹے کر کے لفظ بناتا لیکن یہ لفظ جملے نہ بن پائے اور یوں ہی یونیورسٹی کے دو سال بیت گئے۔ وقت کے جواری ہاتھوں نے ہمیں پھینٹ کر زمانے کی شطرنج پر پھینک دیا۔‘‘(۱۷۵)
رشید امجد کے تمام فنی سفر میں ماں، بہن، بھائی ، بیوی او ربچوں کا تذکرہ ملتا ہے جو اس لحاظ سے محض تذکرہ نہیں رہتا کہ ان کا وجود اور حوالہ اپنے ساتھ ایک وسیع پس منظر لئے ہوئے ہے۔ اس پس منظر کا ارتقاء فرد کی داخلی اور ذہنی کیفیت کے ساتھ منسلک ہے۔یہ کیفیت آسودہ ہے یا نا آسودہ ۔یہ کردار اسی کیفیت کے مکمل طور پر عکاس ہیں۔یہ موضوع بھی ہیں اور کرداری علامتیں بھی اور ان کے توسط سے اسلوب میں بھی ایک انفرادیت اور جدت ابھرتی ہے۔اس جدت کی بھی دونوعیتیں ہیں۔ ایک فرد کی ذہنی کیفیت کے حوالے سے جس کے ساتھ یہ کردار وابستہ ہیں اور دوسرے ان کرداروں کی بات چیت، گفتگو ، ان کا طرزِ احساس اجتماعی زندگی کا کس طرح ترجمان اور نمائندہ ہے۔اس کی عکاسی بھر پور طریقے سے ہوتی ہے ۔ کہیں دوست، احباب کا اس حوالے سے تذکرہ ہے۔ان سب کے حوالے سے فرد کے مختلف احساسات کی ترجمانی ہوتی ہے۔رشید امجد کے یہاں فرد جب خارج کی چیرہ دستیوں سے نبرد آزما ہے۔ معاشی اور سماجی ذمہ داریوں کے بوجھ تلے مر رہا ہے۔تو گھر اور معاشرہ دونوں سے خوفزدہ ہے۔ان سے فرار پانے کے راستے تلاش کرتا ہے۔ اس وقت موضوع اور فکر کے لحاظ سے اسلوب کا انداز مختلف ہے۔
’’صبح ناشتہ کرتے ہوئے میں ماں سے کہتا ہوں۔میں آج شام اغوا ہو جاؤں گا۔ وہ سر اٹھائے بغیر کہتی ہے۔تمہاری تنخواہ کا کیا ہو گا؟وہ ہر ماہ مجھے ملتی رہے گی۔‘‘(۱۷۶)
’’میں سبزی کاٹنے والی چھری سے اپنا ہی ہاتھ کاٹ کر ماں کی جھولی میں پھینک دیتا ہوں۔ وہ میری طرف دیکھے بغیر میر اکٹا ہوا ہاتھ اپنے پرس میں ڈال لیتی ہے۔پھر کہتی ہے کہ تمہارا دوسرا ہاتھ بھی اچھا ہے مگر میرا یہ مقدر کہاں؟بہن کہتی ہے۔ میرا کیا ہو گا؟ماں پر س کو مضبوطی سے ہاتھوں میں دبائے مسکرا رہی ہے۔‘‘(۱۷۷)
یہاں اسلوب کے حوالے سے بھی نہ صرف موضوع کی سچائی آشکار ہے بلکہ موضوع کی صداقت اور اس کے اثر میں بھی گہرائی کا عنصر پید اہو جاتا ہے۔فرد کے دونوں ہاتھوں کا کٹنا، بہن کا پوچھنا،کہ میرا کیا ہوگا،ماں کا مسکرانا، تنخواہ کی باز پرس، پرس کومضبوطی سے پکڑنا علامتیں ہیں کہ فرد معاشی بوجھ تلے بری طرح دبا ہوا ہے اور اسی حوالے سے ’’ا‘ اور ’’ب‘‘ کے کردار ماحول کی خارجی سنگینی کی حامل صورتِ حال کے غماز ہیں۔
’’ب‘‘دفعتاً کہتا ہے۔’’تم کسی کو قتل کیوں نہیں کر دیتے؟‘‘میں کہتا ہوں۔کیسے قتل کروں؟کوئی مجھ سے قتل ہونا پسند ہی نہیں کرتا۔وہ مایوسی سے سر ہلاتا ہے۔ ’’تو پھر اپنے آپ ہی کو قتل کرتے رہو۔‘‘(۱۷۸)
فرد کے یہ محسوسات خارج اور داخل کے حوالے سے عدم تحفظ کا اشاریہ ہیں۔پھر یہ فرد جب خارج سے داخل کی طرف رجوع کرتا ہے۔ تو اس کیفیت کی عکاسی اور ترجمانی میں بیوی کا کرداراُ بھرتا ہے۔ اس کے طرزِ گفتگو سے فرد کی داخلی کیفیت عیاں ہے۔
’’میری بیوی مجھے شانے سے پکڑ کر ہلاتی ہے۔۔۔آپ کیا سوچتے رہتے ہیں آج کل؟۔۔۔میں سوئی ہوئی بیٹی کو دیکھتاہوں۔جو اندھیرے سے بے خبر منہ میں چوسنی لئے مستقبل کے دھندلے زینے چڑھ رہی ہے۔‘‘(۱۷۹)
یہاں شانوں سے پکڑ کر ہلانا،پوچھنا، چوسنی، بے خبری سب علامتیں ہیں اور ’’بیٹی‘‘اس نسل کی علامت ہے جو اس اندھیرے اور عدم تحفظ کے ماحول میں پروان چڑھ رہی ہے۔ یہ سب علامتیں فرد کے مختلف محسوسات ہیں جن کی وضاحت مطلوب ہے۔اسی طرح:
’’ابو آئیں گے تو سوؤں گی ۔ شاپنر،پنسل اور ربڑ لائیں گے۔‘‘(۱۸۰)
’’بیوی مسکراہٹ کے چراغ جلائے دروازہ کھولتی ہے۔بیٹی دوڑ کر ٹانگوں سے لپٹ جاتی ہے۔‘‘(۱۸۱)
’’دروازہ کھلتا ہے۔ اس کی بیوی لپک کر کہتی ہے۔’’شکر ہے آپ‘‘(۱۸۲)
یہاں گھر ، بیوی ، بچی کے حوالے پھر سے فرد کو جزوقتی سکون مہیا کرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔گھر کا تصور پہلے کی طرح فرد کے لئے غیر محفوظ نہیں۔یہ فرد سے وابستہ انسانی رشتوں کا ایک ہالہ ہے جہاں وہ خارج کے بے سکون ماحول سے گھبراکر سکون پاتاہے لیکن فرد کی داخلی بے سکونی،بے یقینی ہنوز باقی ہے۔
ان کرداروں کے حوالے سے صورتِ حال اسلوب میں اس وقت مختلف ہو جاتی ہے جب یہ کردار سماجی ناہمواریوں کا حوالہ بن کر فرد کی ذہنی اور محسوساتی سطح سے ٹکراتے ہیں۔یہاں فرد کا وہ داخلی انتشارعیاں ہوتا ہے جو خارجی زندگی قطرہ قطرہ اس کے اندر انڈیل رہی ہے۔
’’بیوی نے غصہ سے کہا۔آخری تاریخوں میں بیس آدمیوں کی چائے کا بندوبست کیسے ہو گا؟۔۔۔دودھ سات روپے اور چینی دس روپے کلو ہو گئی ہے۔۔۔‘‘(۱۸۳)
رشید امجد جذبات اور کیفیت کی شدت ظاہر کرنے کے لئے ’’متحرک‘‘ الفاظ سے بھی بہت کام لیتے ہیں جس سے تاثر کی شدت کے ساتھ اس کی گہرائی اور گیرائی بھی ظاہر ہوتی ہے۔
’’چمگادڑوں کی ڈار کی ڈار پھڑپھڑا کر قریب سے گزر گئی۔دور سے کوئی اُلّو چیخا اور اداسی کا رقص اور تیز ہو گیا۔‘‘(۱۸۴)
’’شاہراہ کے ساتھ شعلے رقص کرتے رہے اور پھر وہاں کچھ نہ رہا۔ مُرلی کی دھن تیز ہو گئی اور ناچ جوبن پر آگیا۔‘‘(۱۸۵)
’’ہم دونوں باہر آجاتے ہیں۔سڑک روشنیوں کی رِم جھم میں نہا رہی ہے۔‘‘(۱۸۶)
’’باہر آتے ہی حیرت اس کی آنکھوں کے کٹوروں میں پھڑپھڑا کر رہ گئی۔بازار،گلیاں اور سڑکیں جھلمل جھلمل کر رہی تھیں اور خوشیوں سے لدے ہوئے قہقہے روشنیوں کے سیلاب میں تیرتے ہوئے پھر رہے تھے۔‘‘(۱۸۷)
اس حوالے سے ان کے یہاں کیفیت ، احساس اور حرکت میں ایک تال میل ہے۔
’’حیرت کے اہرام میں لپٹی میری آنکھیں سارے جسم کا طواف کرتی ہیں۔میرے جسم پر ملائم شفاف چکناہٹ ہے۔‘‘(۱۸۸)
وہ اکثرصوتی آہنگ سے کام لیتے ہیں۔ یہ صوت خارج سے داخل میں اترتی اور روح کے تار چھیڑتی ہے۔محسوسات کو بیدار کرتی ہے۔اس سے ایک موسیقیت پیدا ہوتی ہے۔
’’نوکرانی نے جھانک کر دیکھا اور اس سے پہلے کہ کچھ پوچھتی ،ڈیوڑھی میں گھنٹیا ں سی بج اٹھیں۔۔اماں کو ن ہے؟‘‘(۱۸۹)
’’اچھا میرے اندر بانسری بجنے لگی۔‘‘(۱۹۰)
مترنم اور متحرک الفاظ کا یہ سفر ان کے یہاں ارتقا ء پذیر ہے بلکہ ایک اضافی خوبی بن کر ان کے اسلوب کو پُر تاثیر بناتا ہے۔
’’اس بار معاملہ صرف مسکراہٹ کی کلیاں کھلنے اور بند ہونے یا جذبوں کی گنگناہٹ اور منہ موڑ لینے تک نہ تھا۔‘‘(۱۹۱)
اسی طرح یہاں بھی مختلف مناظر اور جذبات کی عکاسی اس طور ملتی ہے۔
’’آدھے آکاش پر گھنگھور گھٹا پائل باندھے رقص کر رہی تھی۔‘‘(۱۹۱)
’’شیتل پون سبزے کی باس اور پھولوں کی خوشبو کو مٹھیوں میں بھر بھر کر چاروں طرف اچھال دیتی۔‘‘(۱۹۲)
یہاں اسلوب کا رنگ موضوع کی مناسبت سے فطرت کی رنگا رنگی اور نازک و نفیس انسانی جذبوں کے تال میل سے عبارت ہے۔
خارج کا جبر زندگی کے خارجی تلخ حقائق رشید امجد کے یہاں اس لحاظ سے بھی بڑے اہم ہیں کہ بحیثیت افسانہ نگار وہ اپنے عہد کے ترجمان بھی ہیں اور دوسرے یہ کہ اس خارج کے ساتھ متصادم ہونے کے حوالے سے بھی وہ داخلی زندگی کے اندر اترتے ہیں۔ اسے ردِ عمل کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔جبر کی یہ کیفیت سیاست اور معاشرت دونوں کے حوالے سے ہے۔
خارجی موضوعات ابتداہی سے ان کے یہاں آج تک کے فنی سفر میں نہ صرف جاری و ساری ہیں بلکہ ارتقاء پذیری کی حالت میں ہیں۔یہ ارتقاء پذیری ان کے اسلوب کو بھی رنگا رنگی اور فکری گہرائی عطا کر رہی ہے۔ خارجی جبر کی کیفیت باقاعدہ طور پر ان کے مجموعے ’’بیزار آدم کے بیٹے‘‘سے ابھرتی ہے۔ موضوع میں زندگی کے ٹھوس حقائق اور ان کے ساتھ ساتھ خیال کی بلند پروازی بھی نظر آتی ہے۔فرد بے یقینی اور بدا عتمادی میں اپنے ماحول کی بے جان چیزوں سے بھی گفتگو کرتا نظر آتا ہے۔ ذہن اس جبر سے مفلوج ہے۔
’’سیاہ کیڑے نے میرے ذہن کو کھالیا تھا۔ماحول نے میری روح کو ڈس لیا تھا۔مجھے سوائے درد کے کوئی احساس نہ تھا۔‘‘(۱۹۳)
یہاں داخلی اور خارجی ماحول کا اشتراک ملتا ہے۔یہ اشتراک فرد کی زندگی کو مسلسل ایک کربناک عنوان بھی دیتا جاتا ہے۔معاشرہ اس کے مناسب حال نہیں ۔داخلی دنیا انتشار سے درہم برہم ہے ۔وہ’’لیمپ پوسٹ‘‘سے مخاطب ہے:
’’میں اس کے سینے سے لگ کر خوب رویا مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوا ۔روتے روتے مجھے یوں محسوس ہوا کہ آج اس کے سینے میں زندگی کی کوئی حرارت نہیں۔ میں نے اسے جھنجھوڑا،پکارا، دوستی کا واسطہ دیا لیکن وہ خاموش رہا اور تب مجھ پر انکشا ف ہوا کہ میں لکڑی کے لیمپ پوسٹ کو ہلا رہا ہوں۔‘‘(۱۹۴)
یہ فرد خارج کے جبر میں گرفتار ہے۔ مقابلہ ، موازنہ بھی کرتا جا رہاہے کہ کون کہاں کس طرح اس جبر کا محرک بن رہاہے۔کون سا محرک طاقت ، قوت یا فرد ہے جو اس کا موجب ہے۔یہاں اس فرد کا مشاہدہ تیز سے تیز تر ہوتا جاتا ہے۔
’’ بس میں تل دھرنے کو جگہ نہیں۔لوگ ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے ہیں۔مجھے سب بھیڑ بکریوں کی طرح لگتے ہیں۔۔۔میں ہانکنے والے کو تلاش کرتا ہوں۔وہ مجھے کہیں نظر نہیں آتا۔‘‘(۱۹۵)
ان کے ہاں خوف، دہشت اور ٹوٹ پھوٹ کا عمل یہیں سے شروع ہوتا ہے جو بعد میں کئی اور حوالوں سے بھی ان کے فنی سفر میں اپنی صورتیں بدلتا جاتاہے لیکن ابتدا ہی خارجی ماحول کے جبر سے ہوتی ہے۔معاشرہ سیاسی حوالے سے جن منفی رجحانات کو قبول کر رہا ہے ان کے اثرات تیزی کے ساتھ فرد کی زندگی پر مرتب ہورہے ہیں۔فرد کی شناخت گم ہو رہی ہے۔اس کا وجود ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔یہاں اسلوب کی نئی جہتیں سامنے آتی ہیں۔
’’اس نے ارد گردناچتے چہروں کو ٹٹولنے اور چھونے کی کوشش کی لیکن اس کے ہاتھ لگاتے ہی چہرے جگہ جگہ سے تڑخ گئے۔‘‘(۱۹۶)
رشید امجد ٹھوس وقوعہ اور اس کے تلخ حقائق کے ساتھ متحرک اشیاء ، محسوسات اور تاثرات کو بھی شامل کر دیتے ہیں۔یہاں تخیل،وقوعہ کے ساتھ بندھ جاتاہے لیکن وقوعہ کی صداقت نہ صرف اپنے مقام پر قائم رہتی ہے بلکہ اس کی شدت میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے اور تاثر کا رنگ گہرا نظر آتا ہے۔
’’اس نے طویل سانس لیا یوں لگا جیسے ساری تاریکی اس کے اندر گھس گئی ہے۔ اس نے جلدی جلدی اس تاریکی کو اگلنے کی کوشش کی لیکن چیزیں اور چہرے پھر بھی ٹوٹے ہی رہے جیسے وہ کسی بہت ہی پرانے عجائب گھر سے گزر رہاتھا جہاں کوئی چیز پوری نہیں تھی۔چہرے اور جسم ٹوٹے ہوئے اور آوازیں ادھوری اور بے لفظ تھیں‘‘ (۱۹۷)
خارجی فضا کی تغیر پذیری ان کی سوچ میں بھی تغیر پذیر ہے جس کے اثرات براہِ راست ان کے اسلوب پر مرتب ہو رہے ہیں۔اس کے یہاں اس حوالے سے ایک تسلسل ہے۔خارج اور داخل کا رد و بدل ۔ موضوعات پر اس کے اثرات اور اس حوالے سے اسلوب کا بھی بدلتے رہنا۔یہی وجہ ہے کہ ان کا اسلوب نہ تو روایتی ہے نہ تقلیدی یہ کسی سے مستعار نہیں لیا گیا ۔ وہ حقیقت اور خیال سے موضوعاتی جہت کو تشکیل دیتے ہیں۔یہ موضوع فکری گہرائی کے ساتھ مل کر ان کے جداگانہ اسلوب کی اساس بنتا ہے۔
’’دن، مہینے، سال ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے،قہقہے لگاتے، اس کا منہ چڑاتے زردی مائل دھند میں گم ہوئے جار ہے تھے ۔سب کچھ بدل رہا ہے۔ سب کچھ بدل رہاہے۔چیزیں اپنے پیچھے دھند لاہٹ چھوڑ کر گم ہو رہی تھیں۔‘‘(۱۹۸)
فرد ان متغیر حالات ،متغیر محسوسات میں اپنے اندر متغیر کیفیات محسوس کرتاہے۔وہ داخلی کیفیت اور اس کے ردِ عمل میں پھر خارجی ماحول کو بھی شریک کر لیتا ہے۔
’’میرا وجود ساری بس پر چھا جاتا ہے۔ بس کے اندر کی ہر چیز اس میں سمٹ جاتی ہے۔اب میں سڑک پر دوڑ رہا ہوں۔کٹے پھٹے زخمی میدان تیزی سے پیچھے رہ گئے ہیں۔‘‘(۱۹۹)
انہی حوالوں سے ان کے اسلوب میں تہ داری پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ شعور، لاشعور اور تحت الشعور کی تمام قوتیں ان کی تخلیقی اکائی میں شریک ہیں۔خیال، بے خیالی،یقین، بے یقینی، گمان،خدشے ، وہم،خوف، دہشت، سوچ کے یہ مختلف دھارے ان کے اسلوب میں رنگوں کی کئی لہریں بھرنے لگتے ہیں۔موجود سے ناموجود کا احساس اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
’’اورپھر سارے بھیڑیے غراتے ہوئے ہماری جانب دوڑ پڑے۔دفعتاً اس نے برش اٹھا لیا اور تصویر پر سیاہ رنگ پھیر دیا اور مسلسل پھیرتی رہی۔‘‘(۲۰۰)
تہ دار شعور ان کے اسلوب میں بھی تہ داری پید اکردیتا ہے کیونکہ ذہن کی جو دنیا اپنے موضوعات تخلیق کرتی ہے۔ اسلوب کا پیرہن اسی دنیا کی مناسبت سے بدلتاہے۔ ماضی،حال اور مستقبل تینوں زمانے بھی اس عمل میں شریک ہوتے ہیں۔
"Using appropriate techniques for the content having fresh dimension, he fuses various phases of time or at times deals separately with past, present and future."(201)
خارجی جبر ایک دلدل ہے۔فرد بیزاری، خفگی اور غم و غصے کے عالم میں اس دلدل کے اندر اترتا چلا جارہا ہے۔وہ ان متصادم حالات میں اندر ہی اندر کئی دنیاؤں اور کیفیات سے گزر رہا ہے ۔ اسلوب کے رنگ اس حوالے سے مسلسل بدل رہے ہیں۔یہ کش مکش انتشار اسلوب کی نئی جہت کو تشکیل دیتاہے۔
’’ میں اس دلدل میں اترنے لگا۔اترتا ہی چلا گیا لیکن موڑ کہاں تھے۔ میں تیزی سے اترنے لگا۔ دور سے مجھے موڑ کی حیران آنکھ نظر آئی۔۔ موڑ خالی تھا۔ میں نے بھاگ کر اس میں پناہ لی۔ وہ گلی بن گیا۔ جس کا دوسرا سِرا نہیں تھا۔اس کی دیواریں آسمان سے ملی ہوئی تھیں۔ میں تیزی سے چلنے لگا۔‘‘(۲۰۲)
رشید امجد کا اسلوب اس دوران ’’ہونی‘‘ کے مراحل طے کر رہا ہے۔وہ جو ظاہر کی آنکھ نہیں دیکھ پاتی۔اندر کی آنکھ ان مناظر کو نہ صرف دیکھتی ہے بلکہ ان کی تشکیل اور تکمیل بھی کرتی ہے لیکن اس داخلی تشکیلی قوت کا سفر خارج ہی سے آغاز پاکر یہاں تک پہنچا ہے اور یہاں سے اسے آگے کی طرف جانا ہے۔یہ مختلف خیالاتی اور حقیقی سمتیں ان کے اسلوب میں طلسماتی کیفیت کو جنم دیتی ہیں۔اس طور سے کہ قاری اس طلسم کی دلدل میں اترتا چلا جاتا ہے۔
ــ’’میں اس کی لاش کو کیلنڈر میں لپیٹ کر اس دیوار پر ٹانک آیا تھا۔بہت دنوں بعدایک دن وہ اپنی رنگوں کی پیالی سے باہر نکلی اور دیوار پر لٹکے ہوئے کیلنڈر کی تاریخ بدلنے لگی تو اس کی لاش زمین پر گر پڑی۔ پھر ہم نے مل کر اسے قبر میں دفن کر دیا۔‘‘(۲۰۳)
خارجی جبر ہر طرف سے فرد کی زندگی کو ناہموار بنا رہا ہے۔فرد جس زندگی جیسے رویے کی تلاش میں ہے اسے وہ مل نہیں پاتے اور جو زندگی اسے بسر کرنے کو مل رہی ہے وہ اس کے لئے کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔رشید امجد کا اسلوب اس حوالے سے بڑا رواں اور فطری ہے کہ خیال جس رو سے اظہار چاہتاہے ۔نموپذیر ہو جاتا ہے ۔ یہ فرد نا گوار ماحول پر طنزوتنقید کرتا ہے۔ یہاں طریقہ کار بڑا واضح ، صاف اور فطری ہے۔ کوئی ابہام اور علامتی طریقہ کا راختیار نہیں کیا جاتا۔
’’۔۔۔اور میں پڑوس والے مولوی کے پاس جاتا ہوں اور اس سے کہتا ہوں کہ آ کر جنازہ پڑھائے۔ مولوی کہتا ہے میں تونہیں پڑھاؤں گا۔اس کا جنازہ۔وہ تو ساری عمر مجھے اور مذہب کو گالیاں دیتا رہا ہے۔اس کا جنازہ ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘(۲۰۴)
ایسی ہی طنز کی صورت یہاں پر بھی ہے جس میں اسلوب کی جدت کا ایک اور رنگ ہے۔
’’ اس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔’’کبھی سو چا ہے تم نے کہ اگر ہم بے مقصد گفتگو نہ کریں تو ہمارے چہرے مسخ ہوجائیں ،ہمارے جسم پھول جائیں اور ہم ایک دوسرے کے لئے بچھو بن جائیں۔‘‘(۲۰۵)
اور کبھی ان محسوسات کے حوالے سے عمل اور ردِ عمل کی جو صورت پیدا ہوتی ہے تو علامتی اور استعاراتی سلسلوں میں بھی جدت پیدا ہونے لگتی ہے۔
’’کسی کے منہ پر ہاتھ رکھ کر چیخ کو کب تک روکا جا سکتاہے۔ صبح اٹھ کر اس نے خود سے کہا اور دوڑتا ہوا اپنے بل سے باہر نکل آیا۔بلی غراتی ہوئی اس کے پیچھے دوڑی۔وہ لپک کر دوسرے بل میں گھس گیا۔پھر سارے چوہے ایک بل سے نکل کر دوسرے بل میں گھستے رہے۔ بلی بھا گ بھاگ کر ہانپنے لگی اور بے دَم ہو کر گر پڑی۔‘‘(۲۰۶)
یہاں ’’بلی‘‘اور ’’چوہا‘‘بے اختیار عوام اور با اختیار، صاحبِ اقتدار طبقے کی علامتیں ہیں جن کے درمیان بلی چوہے کا کھیل جاری ہے۔بلی کی فطرت چوہے کا پیچھا کرنا، دبوچناہے اور چوہے کی بے اختیاری، چھپنا،جان بچانا بے بس عوام کو ظاہر کررہاہے۔ فرد اس کھیل کو دیکھ رہا ہے بلکہ خود بھی اسی کھیل کا حصہ ہے۔یہ کھیل اس پر بھی جاری و ساری ہے۔وہ کھیل کے پیچھے فطرت اور ذہن کا رنگ دیکھتاہے اور جانتا ہے۔
جوں جوں یہ سیاسی اور خارجی جبر بڑھتا جاتا ہے ۔ موضوع کے ساتھ ساتھ اسلوب میں بھی اس کی شدت بڑھتی جاتی ہے۔علامتی سلسلے اسی تناسب سے نیا رُخ بدلنے لگتے ہیں۔یہ نیا رخ نہ صرف اردو افسانے میں نیا ہے بلکہ رشید امجد کے فنی سفر میں بھی منفرد نظر آتاہے۔
’’کراہوں کے تیز نوکیلے ناخن، افراتفری کا بال کھول کر دھمال ڈالنا،آہوں کا موسلادھار بارشوں کی طرح برسنا، رات کا بال کھولے سارے شہرمیں گھومنا، شک کا بوسیدہ بدنوں کے دروازوں پر دستک دینا اور ان کے درمیان’’جنازہ کدھر گیا۔۔۔جنازہ گم ہو گیاہے۔‘‘(۲۰۷)
اس دور میں جب کے یہ خارجی حوالے پیکر تراشی کی صورت میں اسلوب کے اندر انتہائی شدت اور خوفناک منظر کی رنگ آمیزی کر رہے ہیں۔
’’آسمان کا طشت اندھیرے سے لبالب بھرا ہوا ہے اور الف ننگی رات ہاتھوں میں خوف کے چابک لئے گلیوں اور سڑکوں پر ناچ رہی ہے۔خار دار باڑوں اور بے بسی کے جبڑوں میں دبا ہوا شہر ، غراتے کتے، تھوتھنیاں اٹھا کر ہوا میں سونگھ رہے ہیں۔غراتے ہیں۔ ہوااور رات الف ننگی ہو کر ہاتھوں میں دہشت اور خوف کی چابکیں لئے سڑکوں اور گلیوں میں دوڑتی ہے۔‘‘(۲۰۸)
زندگی کے اندر جمود بڑھتا جا رہا ہے۔ خاموشی، احتجاج جو اندر ہی اندر فردکی زندگی کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ گھٹن جو بڑھتی جاتی ہے۔یہاں خارج کا کوئی منظر ٹھوس حالت میں نہیں ملتا۔ اگر کوئی مقام باہر کا ہے تو وہ گٹر ہے۔ اس کے اندر کی فضا، ماحول ، کیفیت دراصل اسی معاشرتی زندگی کی علامت ہے جسے فرد گزاررہاہے۔
’’ایک لمحہ کے لئے سکوت کے بعد وہ دفعتاً چیختا ہے۔ میرے بچے، میرے بچے، جواباًرینگتے پانی کی سرسراہٹ اور لیس دار اندھیرے کی چپچپاہٹ۔‘‘(۲۰۹)
رشید امجد ایک ایسی تخلیقی قوت کا نام ہے جو خارج کی متصادم قوتوں سے نبرد آزما ہو کر اپنے لئے نئے سے نئے راستوں کی تلاش پر گامزن ہوتی ہے۔ اس کی داخلی قوتوں کو متصادم ہونے کے بعد زیادہ سے زیادہ ابھرنے کے مواقع میسر آتے ہیں۔یقین کی منزل پر پہنچ کر بھی پھر بے یقین ہو جانا کہ ابھی منزل نہیں آئی ۔یہ فطرت اس لحاظ سے زندگی کے بہت قریب ہے کہ زندگی کی مزاج داں ہے۔ ڈاکٹر نوازش علی اس حوالے سے لکھتے ہیں:
’’وہ کسی یقین کی منزل تک پہنچنا ہی نہیں چاہتا۔‘‘(۲۱۰)
رشید امجد کے لئے یہ جملہ قابلِ ستائش ہے کیونکہ چلتے رہنا ہی زندگی ہے۔یہ حرکت، بے قراری ان کے فنی سفر میں ارتقاء کی صورت بہتی نظر آتی ہے۔اس حوالے سے وہ فرد جو بہت شروع میں اپنا گھر بھول گیا تھا ۔ ایک مرتبہ پھر اپنی چوکھٹ بھول رہاہے۔اس کی وجہ خارج کا جبر ہے۔ عدم تحفظ ہے جو فرد کو بے ٹھکانہ کر رہا ہے۔
’’گھر کہاں ہے؟۔۔۔گھر ہے تو دروازہ کہاں ہے؟۔۔۔اندر جانے کا راستہ نہیں۔۔۔اندھیرا اور سردی بھوکے شکاری پرندوں کی طرح چاروں طرف سے ٹوٹ پڑے ہیں۔دروازہ گم۔۔۔گاڑھا اندھیرا آسمان کی طرف منہ کر کے بھونک رہا ہے۔۔۔‘‘(۲۱۱)
یہ گمشدگی کا بھی سفر ہے۔ فردسے اس کی شناخت گم ہو رہی ہے۔یہ گمشدگی کا سفر اس لحاظ سے رشید امجد کے لئے ایک نعمت ہے کہ یہ انہیں نئے راستوں کی بازیافت کے لئے آمادہ کرتاہے۔ذہن اور فکر کو کام کرنے کی نئی توانائی ، سوچ اور تحریک بھی دیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ خارج کے ساتھ ان کے تصادم سے اسلوب میں اس حوالے سے نئی نئی علامتیں جنم لینے لگتی ہیں۔پہلے بلی اور چوہے کا کھیل تھا اب بلی اور کبوتر باہم متصادم ہیں۔ وہ علامتی سلسلہ افسانہ ’’قافلہ سے بچھڑا غم‘‘میں واضح طور پر موجود ہے اور یہاں افسانہ ’’کھلے دروازے پر دستک‘‘ میں پوری کہانی بلی چوہے کے کھیل کی علامتوں میں اپنے عہد کا پس منظر پیش کررہی ہے۔
’’اسے خیال آتاہے ۔ کبوتر صبح سے پہلے کہیں نہیں جائے گا اور یہ بلی۔۔۔بلی مایوس ہو کر غصے سے چکر کاٹتی ہے۔اس کی بھوک سے لتھڑی میاؤں میاؤں میں چیر پھاڑنے والی غراہٹ شامل ہوتی جارہی ہے۔‘‘(۲۱۲)
ان کا اسلوب موضوع کی خارجی اور داخلی دونوں سطحوں میں معنوی گہرائی اور تہہ داری کا حامل ہے۔خارج کا جبر ان کے بنیادی موضوعات میں سے ایک ہے۔ تمام موضوعات کے حوالے بالواسطہ یا بلا واسطہ اسی موضوع سے منسلک ہیں۔ رشید امجد اس ضمن میں خود لکھتے ہیں:
’’جبر اور ظلم طاقت ور مقناطیس کی طرح چیزوں اور ماحول کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور انہیں اپنے پنجوں میں دبا کر توڑ پھوڑ دیتے ہیں۔یہ تو ایک کیفیت ہے جو دکھائی نہیں دیتی۔صرف محسوس کی جا سکتی ہے۔‘‘(۲۱۳)
ان کے وہ افسانے جو نوے کی دہائی میں لکھے گئے۔ ان میں خارج کا جبر پھر اُبھرتا ہے۔ گو تناسب کم ہے لیکن شدت اپنی جگہ موجود ہے۔فرد پھر عدم تحفظ کا شکار ہو کر داخلی اور روحانی دنیا میں اترنے کی سعی کرتا ہے لیکن اس فرق کے ساتھ کہ اپنے اندر سے اسے اس کا جواب ملے کہ خارجی سطح پر فرد کی زندگی کا توازن کیوں بگڑ تا چلا جاتا ہے۔
’’۔۔۔موت کا کھیل محدود دائرے سے شروع ہوا اور پھر سارے شہر میں پھیل گیا۔تڑتڑ کرتی گولیاں۔۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے لاشوں کا ڈھیر۔۔۔اب کبھی کبھی اسے مرشد کی باتیں یاد آتیں۔ زوال کا بھی ایک نشہ ہے جس قوم کو چڑھ جائے۔ وہ ڈھلوان پرلڑھکنے میں بھی لذ ت محسوس کرتی ہے۔‘‘(۲۱۴)
یہاں یہ نکتہ نہایت اہم ہے کہ رشید امجد نے خارجی جبر کے موضوع کو محض وقتی یا ہنگامی مسئلے کی صورت سے نہیں لیا بلکہ اگر ہم اس موضوع کو ان کے فنی سفر میں ایک اکائی کی صورت میں لیں تو یہ ایک تاریخی صداقت کی صورت میں سامنے آتا ہے جہاں قوموں کے زوال کے اسباب ، واقعات اور نتائج مرتب کئے جا سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ نتائج کی زد میں آئے ہوئے معاشرے کی اجتماعی صور ت حال کی ٹوٹ پھوٹ کا تسلسل بھی جاری و ساری ہے ۔یہی وجہ ہے کہ خارجی جبر کا عنصر ابھی تک کسی نہ کسی حوالے سے ان کے یہاں موجود ہے۔ اسلوب اس عنصرکی محسوساتی سطح کو گرفت میں لے رہاہے۔
’’شاید کہیں کوئی گڑبڑ ہوگئی ہے۔اس نے فضا میں پھیلے خوف اور خاموشی کو سونگھتے ہوئے کہا۔ لگتا ہے بسیں بند ہو گئی ہیں۔اب شاید۔۔۔وہ تیز ہوا کی زد میں آئی تنہا شاخ کی طرح کانپی۔‘‘(۲۱۵)
صوت (آواز ) کا عنصر ان کے یہاں مقابلتاً زیادہ ہے۔ایک آواز وہ جو محسوساتی سطحوں پر پیدا ہوتی ہے او رسنی جاسکتی ہے۔ اس کا تعلق داخلی اور روحانی سطحوں کے ساتھ ہے۔ ’’صوت‘‘کا دوسرا تعلق اشیاء اور وجود کی خارجی سطح سے ہے۔ وہ آوازیں جوسنی اورسنائی جا سکتی ہیں۔ رشید امجد کے یہاں دونوں حوالوں سے ایک صوتی منظر نامہ تشکیل پاتاہے جس سے کیفیت کی شدت او ر تاثر دکھائی دیتی ہے۔آوازان کے یہاں حالات اور ماحول کی عکاس بھی ہے اور اس سے سمت کا تعین بھی ہوتاہے۔
’’آواز، آواز۔۔آواز۔ہونہہ۔۔اب تو آوازیں ردی کاغذوں کی طرح بے اثر ہو چکی ہیں اور گندی ٹوکریوں میں دم توڑرہی ہیں۔ زبانوں پر زہر کے سرکنڈے اُگ آئے ہیں۔‘‘(۲۱۶)
’’پاؤں کے نیچے سوکھے پتوں کی چرُمُر، چُرمُر کی بے صدا آوازیں، سائلنسر اُتری موٹر سائیکل کی پھٹ پھٹ، مسلسل ، ککُو،ککُو، بچہ یہ سن کر،۔۔۔کاں ، کاں ۔۔کاں کرتاہے۔سڑک کے بیچوں بیچ شاں شاں کرتی تیز گاڑیاں وغیرہ۔‘‘(۲۱۷)
’’آواز‘‘ رشید امجدکے یہاں داخلی اور خارجی دونوں حوالوں سے ابھرتی ہے۔ ایک وہ آوازجو سنائی دے رہی ہے ۔وہ اپنے ماحول کی عکاسی ہے۔ دوسری وہ جو ظاہر نہیں۔وہ صرف محسوسات کے اندر پوشیدہ ہے۔ اس آواز میں اسرار ہے۔اس آواز کی تلاش میں رشید امجد کی فکر سرگرداں ہے۔ یہ آواز جو ہاتھ میں آکر بھی اپناپلّو بچا لیتی ہے۔
’’آواز کے رنگ اِس سِرے سے اُس سِرے تک سارے جسموں کی دیواروں پر آنکھ مچولی کھیل رہے تھے اور صحن صحن سبھی اپنے کانوں کے کاسے پھیلائے آواز کے شہر کو بوند بوند سمیٹ رہے تھے۔۔۔‘‘(۲۱۸)
’’مجھے آوازیں بہت سنائی دیتی ہیں مگر جسم دکھائی نہیں دیتے۔۔۔‘‘(۲۱۹)
آواز ان کے یہاں ایک محرک ہے ۔ موجودسے ناموجود تک پہنچنے کا۔ حقیقت سے تفکر کی گہرائی تک آواز ہی سمت کا تعین کرتی ہے۔آواز’’موجود‘‘کا تجزیہ کرنے کا موجب بھی ہے اور اس سے نتائج اخذکرنے کا ایک آلہ بھی ۔’’آواز‘‘رشید امجد کی ابتدائی کہانیوں میں بھی انہی حوالوں کو سمیٹتی ہے۔
’’اردو کے پرچے ہیں نا‘‘میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ اس نے جیب سے ایک چٹ نکالی اور مجھے دیتے ہوئے بولا۔پہلی کلاس میں جاتے ہوئے دل میں جو جوش اور ولولہ تھا وہ دوہی پیریڈوں میں ختم ہو گیا تھا۔ میرے چاروں طرف آوازوں کے گنبد تھے اور میں ان کے درمیان حنوط کی ہوئی لاش کی طرح سجا کر رکھ دیا گیا تھا۔۔۔‘‘(۲۲۰)
صوت کا عنصر فرد کو خارج کا علم بھی عطا کرتا ہے اور داخل کا اسرار بھی۔رشید امجد کے یہاں افسانوں میں کسی نہ کسی حوالے سے ایسے واضح اشارے ملتے ہیں جس سے اس بات کا بہت حد تک تعین ہو جاتا ہے کہ وہ زبان و بیان کے پرانے سانچوں سے گریزاں ہیں۔یہ صورتِ حال ان کے تقریباً ہر دور کے افسانوں میں ملتی ہے۔
’’چیزیں دھندلی ہوتی ہوئی لفظوں میں بدل رہی تھیں اور دھیرے دھیرے اپنی جگہ سے سرکتی چلی جار ہی تھیں ۔۔۔لفظ اور ہندسے جگہ جگہ سے ٹوٹے ہوئے تھے اور سارے چہرے بے ڈھنگے اور فوکس سے نکلے ہوئے تھے ۔‘‘(۲۲۱)
افسانہ’’تیز دھوپ میں مسلسل رقص‘‘ اور ’’تشبیہوں سے باہر پھڑپھڑاہٹ‘‘ میں بھی وہ اس صورتِ حال کا ذکر اس طور کرتے ہیں:
’’وہ سر گھماگھما کر ایک ایک کو دیکھتا ہے۔ پھر کتاب کو زور سے دیوار پر دے مارتا ہے۔کتاب کے مضمون پر ٹنگے حرف ٹوٹ ٹوٹ کر تڑخ تڑخ کر نیچے گرتے ہیں ۔سوکھے لفظ ۔۔تڑخے ہوئے لفظ، چوسے ہوئے لفظ، پھوکے لفظ۔۔۔‘‘(۲۲۲)
اس افسانہ ’’تشبیہوں سے باہر پھڑ پھڑاہٹ ‘‘کا عنوان ہی اس موضوع کی اہمیت اور ضرورت کا ترجمان نظر آرہاہے۔
’’ہمارے تو حروفِ تہجی ہی بیمار ہیں۔ اور میں۔میں کون ہوں؟اسے خیال آیا ۔اسے اپنے لئے بھی کوئی حرف منتخب کر لینا چاہئیے۔ کہیں ا سے ی تک سارے حروف تو بخار میں مبتلا نہیں؟۔۔ہمیں جو کچھ ورثے میں ملا ہے وہ کھوکھلا اور بیمار ہے۔‘‘(۲۲۳)
رشید امجد کے اسلوب میں جو جدت ہے ، جو اجتہاد ہے ۔ان کا یہ نقطہ نظر واضح طور پر اعتراف ہے ۔ایک تعین شدہ راستہ ہے کہ وہ زبان وبیان کے نئے سانچے کی نہ صرف ضرورت محسوس کر رہے ہیں بلکہ عملی طور پروہ اس حوالے سے نیا راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ لفظ جو اظہار کے پرانے سانچوں کی صورت اختیار کر کے غیر موثر ہوتے جا رہے ہیں۔ انہیں یقینا ایک نئے پیرائے میں بیان کرنے کی ضرورت ہے۔
’’لفظ جو شہر کی الماریوں میں ، کتابوں کے پنجروں میں بند قیدِ تنہائی کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ لفظ جب باسی ہوجائیں تو بو دینے لگتے ہیں۔تعفن سے لبریز، گندی بو۔۔‘‘(۲۲۴)
رشید امجد کے پاس لفظ ،بیان اور اسلوب اظہار کا بڑا موثر اور توانا ذریعہ ہے۔یہ صرف تزکیہ نفس کا آلہ ہی نہیں بلکہ ابلاغ کا سب سے بڑا ذریعہ اور راستہ ہے ۔رشید امجد کو اسی حوالے سے زبان اور لفظوں کا کھلاڑی کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔اس راستے پروہ صرف روایت شکن ہی نہیں بلکہ تخلیق کار بھی ہیں۔
’’بانجھ لفظوں سے کوئی جنم نہیں لیتا۔‘‘(۲۲۵)
یہاں ایک نئے اسلوب کی راہ ان کے ہاتھوں وجود پارہی ہے۔وہ لفظ اور پیرایہ بیان بھی نظر انداز کیا جار ہا ہے۔ جو فرسودہ ہو چکا ہے اور وہ بھی جو ’’کافی‘‘ہونے کے باوجود اپنے عہد کی ترجمانی میں نا کام ہے ۔ لفظ اور زبان کا تصور ان کے نزدیک بڑا واضح ہے ۔وہ کسی شک یا ابہام کی کیفیت کو الفاظ کانام نہیں دیتے۔
’’میرے پاس بے معنی، چپ لفظوں کا ڈھیر رہ گیا ہے جو نہ بولتا ہے نہ دیکھتا ہے۔ لفظوں کی زبانیں کٹی ہوئی ہیں۔‘‘(۲۲۶)
’’اس کے پاس لفظ ہیں بھی کہ نہیں۔ بس وہ تو اچھل اچھل کر دھند میں لپٹی شبیہوں کو پکڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘‘(۲۲۷)
یہاں وہ فرسودہ زبان و بیان کے لفظی اور کھوکھلے سانچے پر طنز کا طریقہ بھی اختیار کرتے ہیں کیونکہ لفظ ان کے نزدیک اپنی خارجی اور داخلی اکائی میں بندھا ہونے کے ساتھ ساتھ روایت اور جدت دونوں کا عکاس بھی ہے۔
’’میں نے چیخ چیخ کر کسی کو پکارا لیکن لفظوں کی ساری عمارتوں میں بڑی بڑی دراڑیں پڑی ہوئی تھیں۔‘‘(۲۲۸)
یہاں اسلوب کے حوالے سے تعمیر کاایک نیا سفر در پیش ہے۔اظہار کے پرانے سانچوں کا رشید امجد رد و قبول کی صورت تجزیہ کرتے ہیں ۔ اس لئے کہ نئے موضوعات اور موضوعات کی گہرائی اب بھی نئے پیرایہ بیان کی متقاضی ہے۔رشید امجد کے کم و بیش تمام فنی سفر میں آغاز سے، ابتدا کے افسانوں میں ’’پرندہ‘‘اپنی ایک مخصوص ، منفرد علامت اور شناخت رکھتا ہے۔پرندہ ٹھوس اور جاندار وجود رکھتا ہے۔اس سے منسلک حوالے خیال کی
وضا حت کے پیشِ نظر اکثر بدلتے رہتے ہیں۔اکثر اس کا حوالہ دل میں نئی خواہشات کا جنم لینا، بے قراری کی کیفیت، حرکت وحرارت اور تغیر و تبدل کی صورتوں سے وابستہ ہے۔ اس کی ظاہری سطح پر ہلکا ہلکا ارتعاش رہتا ہے۔یہ ان کے تخیل کی پروازکے ساتھ حرکت کرتا ہے اور ٹھوس وقوعہ کے ساتھ وابستہ بھی ہے۔
’’میں اپنی خواہشوں کے پنجرے سے اُڑے ہوئے پرندوں کو پکڑنے کی کوشش کرتارہتا ہوں لیکن سارے پرندے دھند میں لپٹی ہوئی زمین سے دور دور نکل گئے ہیں۔‘‘(۲۲۹)
یہ روحانیت کا ایک سفر بھی ہے۔
’’وہ ننھا سا پرندہ پھڑ پھڑا کر اُڑجائے آسمان کی نیلی وسعتوں کی سمت ،اپنے گھر کی طرف۔۔۔‘‘(۲۳۰)
’’پرندہ‘‘ان کے اسلوب کے تحرک کی بنیادی ضرورت بھی ہے لیکن اکثر مقامات پر وہ پرندوں کے دیگر حوالوں کو بھی نئے رنگ سے پیش کرتے ہیں۔کہیں یہ رنگ خارجی اور حقیقی ہیں۔کہیں تاثر اتی اور کہیں صرف محسوساتی سطح پر ان کا اظہار ہوتاہے ۔ان کے ساتھ دیگر جانوروں کا حوالہ بھی موجود ہے۔
’’جنگل کے ہرن سینگ میں سینگ پھنسائے اس کے سینے پر کلیلیں کر رہے تھے۔‘‘(۲۳۱)
’’بدن کے کچے آنسوؤں میں جوانی کے بہت سے کبوتر غٹر غوں غٹر غوں کر رہے تھے۔‘‘(۲۳۲)
’’دوسری وہ لڑکی جس کی آنکھوں میں پھدکتی شوق کی چڑیاں بار بار۔۔۔‘‘(۲۳۳)
’’عمر کی رنگین تتلی کے پیچھے بھاگتی لڑکی۔۔۔‘‘(۲۳۴)
’’عمر کے طوطے کو پچکارتا بوڑھا۔۔۔۔‘‘(۲۳۵)
یہاں پرندوں کی علامتی سطحوں پر یہ نکتہ بھی قابلِ غور اور بڑا اہم ہے کہ پرندوں کے اپنے مخصوص مزاج اور ان کی فطرت کے ساتھ انسان اور اس کی عمر کے درجے کے فطری رجحان کا ایک تقابلی نقطہ نظر بھی ابھرتا ہے۔ ’’لڑکی کے ساتھ رنگین تتلی‘‘کا بیان اس کی عمر اور فطری مزاج کے مطابق ہے ۔جب کہ ’’بوڑھا اور طوطا‘‘ عمر کی سنجیدگی اور تجربہ کاری کا بھی ایک مشترکہ حوالہ ہے۔
ان کے ہاں چیونٹیاں ، کتے، الو ، چڑیاں ،بلی، کبوتر، چوہے ، گھوڑا، پرندہ، چمگادڑ، سب کے سب علامتوں کے سیلاب میں بہہ رہے ہیں۔ یہ علامتیں متغیر رہتی ہیں۔ بہت کم علامتیں جامد صورت میں نظرآتی ہیں جن کی ایک متعین شدہ حالت اور کیفیت ہے۔ ان میں اس حوالے سے گھوڑا سب سے اہم ہے۔
’’چیونٹیاں سر ہلاتی ، کورس میں گاتی ہیں۔ہزار سال، ہزار سال،درخت کی شاخ پر بیٹھا الو دیدے نچاتا ہے۔۔۔الو، عمارت میں سب منجمد ہو جاتے ہیں۔‘‘(۲۳۶)
اس افسانے ’’کھلی آنکھ میں دھند ہوتی تصویر‘‘ میں، تمام کہانی کے اندر کتے کا کردار مرکزی علامت کے طور پر ابھرتاہے۔
’’کسی طرف سے کتا رینگتا ہوا سر نکالتا ہے اور نالی میں سے چپڑچپڑ پانی پیتا ہے۔ پھر منہ اٹھا کر ہوا میں سونگھتا اور بھونکنے لگتا ہے۔‘(۲۳۷)
افسانہ ’’منظر سے باہر خوشبو‘‘میں پرندہ آزادی کی علامت بھی ہے۔یہ ’’پرندہ‘‘رشید امجد کے فنی سفر میں مسلسل محوِ پرواز ہے۔ اس کی پرواز بلند سے بلند تر ہوتی جاتی ہے ۔ حتیٰ کہ اب تک کے آخری مجموعے’’ست رنگے پرندے کے تعاقب میں‘‘کا عنوان بھی اسی کے نام ہے۔ یہ علامت ٹھوس اور متحرک ہے۔رشید امجد کے فکر و فن کی مخصوص پہچان اور حوالہ بن کر ان کے ہمراہ ہے۔ یہ وہ خواہش ہے ۔جو اندر ہی اندر اپنے روپ بدلتی ہے لیکن وجود برقرار رکھتی ہے۔یہ وجود شاید انسان کی زندگی کے ساتھ ساتھ بدلتاہے۔ اس مجموعے میں ایک افسانہ بھی اسی عنوان سے ہے۔ یہاں پہنچ کر احساس ہوتا ہے کہ پہلے شاید یہ پرندہ اپنے پروں کے رنگ دکھاتا اور بدلتا رہا ہے۔اب یہ تمام حوالوں سے اکائی بن کر تہذیبی تمدنی روایات کی علامت بن گیا ہے۔اس نے بھی اپنا یہ سفر شاید اسی مقام تک پہنچنے اور اسی مقصد کے حصول کی خاطر طے کیا ہے۔یہاں یہ موضوع کے ساتھ ساتھ اسلوبیاتی اساس میں بھی پوری طرح دخیل اور نمایاں ہے۔
’’رنگ برنگا پرندہ آسمان کی وسعتوں سے چکرا کر پچھلے ٹیر س پر آبیٹھا۔‘‘(۲۳۸)
’’کاریگر ماہر تھا۔ آدھی سے زیادہ چارپائی بن گئی تھی۔۔۔یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی ست رنگا پرندہ پَر پھیلائے ٹیرس پر رقص کر رہا ہے۔‘‘(۲۳۹)
اور کبھی یہ ’’ست رنگا پرندہ‘، ’’ست رنگی چڑیا‘‘ بن جاتا ہے لیکن اصل اس کی خواہش ہی ہے۔
’’خواہش تھی کہ ست رنگی چڑیا کی طرح ایک ڈالی سے پھدک کر دوسری ڈالی پر جا بیٹھتی۔‘‘(۲۴۰)
کبھی ’’ست رنگی دھنک‘‘اور ’’ست رنگی چڑیا‘‘جیسے الفاظ میں وہ ملے جلے جذبوں کا تال میل بھردیتے ہیں۔اسلوب کی لچک داری یہاں فطری ، رواں اور شدید تاثر کو جنم دیتی ہے۔پرندہ ان کے یہاں داخل سے خارج اور خارج سے داخل کی جانب اپنے پہلو اور رخ بدلتا رہتاہے۔درحقیقت یہی داخل اور خارج کی کش مکش ہے جس کی متصادم کیفیات میں انسان کا وجود کبھی ابھرتا اور کبھی غائب ہوجاتا ہے۔اس کی داخلی خواہشات خارج کی بے اعتدالیوں سے نبرد آزما رہتی ہیں۔آسودگی، نا آسودگی کا ایک سفر ہے۔ انہی ملی جلی کیفیات کو خود سے الگ کر کے رشیدامجد نے پرندے کو علامت بنا دیا ہے بلکہ خود پرندے نے علامتی پیرایہ اختیار کر لیا ہے۔
’’ڈھال پر سامنے کی تلوار کا وار روکتے ہوئے اس نے جھٹک کر ننھے سے پرندے کو اڑانا چاہا لیکن وہ درخت کی شاخوں میں چھپ گیا اور کچھ دیر بعد جب وہ اپنے دشمن کے سینے میں تلوار اتار رہا تھا۔ننھا سا پرندہ پھدک کر ٹہنی پر آبیٹھا۔‘‘(۲۴۱)
’’پرندہ ‘‘اپنی پرواز میں سمٹتے سمٹتے استعاراتی سطح پر اپنے معنی و مفاہیم متعین کر لیتاہے اور یہ مفاہیم انسان کی داخلی خواہشوں کے ساتھ وابستہ ہوتے نظر آتے ہیں۔یہ خواہشیں جوں جوں پوری ہوتی اور دم توڑتی ہیں اس کا وجود بھی اسی حوالے سے مرتا اور زندہ ہوتاہے ۔
’’ایک رنگ برنگا پرندہ اس کے دل کے آنگن میں پَر پھیلا کر لمحہ بھر کے لئے ناچا۔چہکا اور یخ سردی میں کہیں کھو گیا۔‘‘(۲۴۲)
پرندہ اور خواہش کا یہ حوالہ یہاں اس صورتِ حال کا بھی غماز ہے کہ فرد اپنی نا آسودہ خواہشات کے ساتھ متصادم حالات سے ابھی تک دست و گریبان ہے۔ افسانہ’’ آئینہ گزیدہ‘‘میں پرندہ پھر اپنی کسی حد تک متعین شدہ جگہ کو چھوڑکر ایک نئی داخلی کیفیت اور صورت میں ڈھلتا نظر آتاہے۔ یہ رشید امجد کی فطرت کا اضطراب ہے کہ وہ پرندے کی علامت کو بھی ہر لمحہ تغیر پذیر رکھتے ہیں۔ پرندہ اپنے وجود ،اپنی فطرت میں متحرک ہے۔ یہی حرکت، حرارت اور مضطرب کیفیت رشید امجد کے داخلی محسوسات سے ہم آہنگ ہے۔ یہ کیفیت پرندے کو یہاں وجود کی دوئی عطا کر رہی ہے۔اس دوئی میں ’’اکائی‘‘پہلی اور مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔اس اکائی کی تقسیم ہوتی ہوئی جہتوں میں پرندہ بھی ایک جہت لے کر ابھرتا ہے جس میں فکری عنصر بھی شامل ہو گیا ہے۔
’’آخر تھک کر اس نے اس حد تک سمجھوتہ کر لیا کہ اگر اس کے وجود کے آلنے میں اس کے علاوہ کوئی اور پرندہ آن بسا تو کیا ہے۔ دونوں اپنے اپنے حصے کی جگہ بانٹ لیتے ہیں اور چپ چاپ ایک دوسرے کو کچھ کہے بغیر ایک دوسرے کی پرواز میں رکاوٹ ڈالے بغیر اپنی اپنی جئیے جاتے ہیں۔ایک کے دو ہو گئے تو پھر کیا ہے۔ آخر’’کُل‘‘اسی طرح تو اجزاء میں بٹتا رہتا ہے۔‘‘(۲۴۳)
پرندہ اسی حوالے سے یہاں بھی منفرد زاویہ نگاہ رکھتا ہے۔
’’کبھی اس کے اندر کے اندھیرے سے بھی کوئی پرندہ اسی طرح پھڑپھڑا کر نکلے اور کھلی فضا میں دور تک اڈاریاں مارتاہوا نیلی فضاؤں میں گم ہوجائے۔‘‘(۲۴۴)
’’پرندہ‘‘یہاں انسان کے اندر صرف ’خواہش‘نہیں رہا بلکہ کچھ اور ہی رنگ اختیار کر رہا ہے۔اسے ہم ’’جزو‘‘اور ’’کل‘‘کے حوالے سے بھی دیکھتے ہیں۔ایک طرف خارجی اور مادی وجود اور اس کے اندر روح کی پرواز۔ ’’نیلی وسعتیں‘‘اس کا کُل ہیں۔
ابتدا میں رشید امجد کے یہاں موت، قبر، قبرستان کے حوالے نہ صرف موضوع کے لحاظ سے اہم ہیں بلکہ ان کے سِرے اپنے عہد کے خارجی عوامل اور جبر کی کیفیت سے وابستہ نظرآتی ہیں۔اس دور میں کہیں موت تشبیہ ہے کہیں استعارہ، کہیں علامت اور کہیں یہ اپنا مخصوص پیکر تراش لیتی ہے۔رشید امجد اس ضمن میں خود لکھتے ہیں:
’’قبر، موت اور جنازہ مختلف ادوار میں مختلف معنویت کی علامت ہے۔’’بیزار آدم کے بیٹے‘‘کی کہانیوں میں قبر اور موت خارج میں موجود نا موافق صورتِ حال سے پناہ کی جگہ ہیں۔یہ فرار انفرادی نوعیت کا ہے۔‘‘(۲۴۵)
یہاں قبر ذات اور خارجی ماحول کی علامت بنتی نظر آتی ہے۔زندگی اور موت میں فرق، اس دور کے فرد کے نزدیک شاید باقی نہیں رہتا۔
’’اگلے چوک پر ’’ب‘‘رک جاتاہے اور کہتاہے کہ بہت دیر ہو گئی۔ اب میں اپنی قبر کی طرف جاتاہوں اس کے جانے کے بعد میں سوچتاہوں۔ہماری قبریں اتنی دور دور کیوں ہیں لیکن میری قبر تو میرے ساتھ ہے۔ میری قبر نے مجھے چاروں طرف سے لپیٹا ہوا ہے۔چاروں طرف قبریں ہی قبریں ہیں۔’’ب‘‘اب اپنی قبرکے قریب ہو گا لیکن قبر کیوں؟وہ تو اس کا گھر ہے۔‘‘(۲۴۶)
یہاں قبر کے ساتھ گھر کا تصور بھی وابستہ ہے۔جو فرد کے لئے عدمِ تحفظ کی جگہ بن جاتاہے۔
یہاں ایک ہی ذہنی کیفیت میں موت کی تین نمایاں جہتیں نظر آتی ہیں۔جنہیں مختلف علامتوں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔پہلی صورت،موت کا وجود کے اندر ہونا یقینی ہے۔ دوسری صورت گھر جو زندگی کی رونق اور آبادی کا تصور دیتے ہیں۔عدم تحفظ کی آماجگاہ بن کر موت کی سی خاموشی اور اداسی کا نقشہ پیش کر رہے ہیں اور تیسری صورت خارجی ماحول کا انتشار اور نا موافق ماحول ہے۔افسانہ ’’ا کی موت پر ایک کہانی‘‘اور ’’جلاوطن‘‘میں موت اور قبر کی علامتوں میں قدرے جدت اور ردو بدل ہونے لگتاہے۔
’’میں تیزی سے زینے پھلانگتا اوپر چڑھتا ہوں اور کمرے میں داخل ہو کر اپنی قبر میں گھس جاتاہوں۔کچھ دیر میں بے حس و حرکت پڑا رہتاہوں ۔پھر رفتہ رفتہ مجھے اپنے ہونے کا احساس ہونے لگتا ہے۔‘‘(۲۴۷)
یہاں قبر جزوقتی اور لمحاتی سکون کے لئے محض چند ثانیے کے لئے آنکھیں بند کرنے کی علامت بنتی نظر آتی ہے۔ جبکہ ’’اکی موت پر ایک کہانی‘‘میں لکھتے ہیں:
’’آج میں نے اپنی موت کی دستاویز پر دستخط کئے ہیں۔ وہ یہ چاہ رہی تھی کہ میں اس پر دستخط کردوں۔۔۔آدمی مَرجائے تو سارے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں۔‘‘(۲۴۸)
یہاں موت ان کا رومانس دکھائی دے رہی ہے۔موت انہیں اپنی جانب کھینچتی اور اس موت کے باعث دوسرے ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ یہاں موت کے حوالے سے ہجر بھی ہے اور وصال بھی ، لذت بھی ہے اورکرب بھی ۔ یہاں موت زیادہ تر حوالوں میں مجسم ہے۔اس کا ایک مخصوص پیکر ہے۔
’’وہ میری قبر پر جا کر فاتحہ پڑھتی اور آنسو بہاتی ہے لیکن اسے معلوم نہیں کہ میں تو اس میں موجود ہی نہیں۔‘‘(۲۴۹)
’’سنسان راستوں پر موت دبے قدموں ہمارا تعاقب کرتی ہے۔‘‘(۲۵۰)
’’دھوپ کا سیلاب مجھے آگے بہائے لئے چلا جاتا ہے۔ میں دروازوں سے رستی ہنسی کی خوشبوؤں کی رسی تھامے قبرستان کے بڑے دروازے کی طرف بڑھتاہوں۔اس کا بڑا دروازہ دونوں بانہیں کھولے مجھے پکارتا ہے۔‘‘(۲۵۱)
لیکن جب ’’موت‘‘کے ساتھ کوئی نا خوشگوار احساس اور تلخ حقیقت لمحاتی طور پر وابستہ ہو جاتی ہے تو پھر موت سے وابستہ تمام قائم شدہ حوالے اور علامتیں بدل جاتی ہیں۔
’’موت کتنی بھیانک شے ہے۔چیزوں کے چہروں کو مسخ کر دیتی ہے۔۔۔۔وہ انسانوں کی طرح شہروں پر بھی نازل ہوتی ہے۔ہمارے چہرے کتنے بدل چکے ہیں۔‘‘(۲۵۲)
یہاں ’’موت‘‘اپنی ذاتی علامت میں بھیانک نہیں بلکہ اس سے وابستہ دیگر خارجی او رمعنوی حوالے اسے بھیانک بنا رہے ہیں۔یہاں ایک اورنکتہ بھی قابلِ غور ہے ۔وہ یہ کہ رشید امجد نے اگرچہ ’’وقت‘‘کے لئے پانی ، دریا اور سمندر کے استعارے استعمال کئے ہیں لیکن بالواسطہ دریا، سمندر اور پانی کے استعارے ’’موت‘‘کے تصور سے بھی بندھے ہوئے ہیں کیونکہ وہ بھی موت کی طرح سب کچھ اپنے ساتھ بہا کر لے جاتے ہیں ۔ اس حوالے سے بھی رشید امجد اس سے متعلقہ خارجی اور بھیانک عوامل کے باعث اسے خوفزدگی کی علامت بنا کر پیش کرتے ہیں۔یہاں علامت میں تخیلاتی تجربہ کار فرما ہے۔
’’میں دریا سے خوفزدہ ہوں کہ دریا ان کا مسکن ہے جو ہر تیرنے والے کو کھا جاتی ہے۔میں خود کو بڑا تیرا ک سمجھتا تھا لیکن ایک دن میں ان کے چنگل میں پھنس گیا۔ وہ چاروں طرف سے مجھ پر حملہ آور ہوئیں اور میری آنکھیں ، ٹانگیں اور سر کھا گئیں۔ اب میرے جسم کی باری ہے۔ میں دریا سے بھاگ جانا چاہتا ہوں مگر دریا میرے چاروں جانب تاحدِ نظر پھیلا ہوا ہے۔‘‘(۲۵۳)
’’تم بہتے دریا میں ایک کمزور تنکا ہو۔ ‘‘اس نے کہا ’دریا کی یہ حالت ہو تو تنکا کر بھی کیا سکتا ہے۔‘‘(۲۵۴)
اور کبھی دریا فکر کی گہرائی اور گیرائی کو ماپنے کا ایک آلہ نظر آتا ہے ۔
’’دریا کے دوسرے کنارے پر پہنچنے کی تمنا سے بڑھ کر یہ ٹھہرا کہ اس کی اتھا ہ گہرائیوں کوجانا جائے۔‘‘(۲۵۵)
رشید امجد کے اسلوب کی معنوی سطحوں میں ایک مخصوص اور منفرد خصوصیت ہر شے اور ہر وجود کے اندر اس کی لچک دار فطرت ہے ۔ایک شے کسی بھی لمحہ دوسری شے میں ڈھلنے کا ہنر جانتی ہے۔ہر شے کا مزاج یہاں متلون ہے۔ حتیٰ کہ زمانہ، کائنات،زندگی اور موت جیسی اٹل حقیقتیں بھی اس لچک داری کے پروسس سے گزر کر کچھ کی کچھ نظرآنے لگتی ہیں۔رشیدامجد کافن گویا اس کیفیت کی محسوساتی سطحوں کے بغیر تشکیل ہی نہیں پاتا۔
’’میرے اندر کوئی چیز تیزی سے پھیلنے لگتی ہے۔بس نے رفتار پکڑ لی ہے۔ سڑک کے دونوں طرف کے مناظر تیزی سے دوڑ رہے ہیں ۔میرا وجود سیٹ کی گرفت سے نکل کر بس میں پھیلنے لگا ہے۔‘‘(۲۵۶)
احمد جاوید لکھتے ہیں:
’’رشید امجد کے فن میں ٹھہراؤ نہیں ہے بلکہ ایک مسلسل ارتقاء ہے جو اس کے اسلوب میں بھی جاری ہے اور اس کے موضوعات میں بھی ۔‘‘(۲۵۷)
فن اور اسلوب میں ٹھہراؤ کا نہ ہونا اور مسلسل ارتقاء پذیری کی صورت غماز ہے کہ رشید امجد کے ہاں نئے نئے خیالات کا جہانِ دیگر نموپذیر رہتا ہے۔ محسوسات کی نئی سطحیں متحرک رہتی ہیں۔مثلاً یہاں وہ موت ، قبرستان وغیرہ کے حوالے سے ایک نئی محسوساتی سطح اور کیفیت سے گزرتے ہیں جس میں خارجی زندگی کی بے اعتدالی کا رنگ بھی گھلا ملا ہے بلکہ خارج ایک کریہہ صورت میں موجو دہے۔
’’۔۔۔دفعتاً شاہراہ کے برابر والے قبرستان کی قبروں کے منہ کھل گئے اور ان میں سے ایک ایک کر کے مردے نکلنے لگے ۔ایک شخص نے جس کے منہ پر خون مَلا ہوا تھا اور جس کے ناخن لمبے اور پاؤں الٹے تھے۔ بغل سے مُرلی نکالی اوربجانے لگا۔مردے مرلی کی تان پر مست ہو کر شاہراہ کے ساتھ ساتھ الٹے لٹکے انسانوں کے گرد ناچنے لگے۔‘‘(۲۵۸)
رشید امجد مخصوص کیفیا ت و محسوسات کی عکاسی کے لئے کہیں بھی لفظوں کے دانستہ چناؤ اور انتخاب کی شعوری کوشش سے نہیں گزرتے ۔ان کا اسلوب ہر کیفیت کی عکاسی میں طاق ہے۔ اس حوالے سے صرف الفاظ کے مجموعی تاثر سے ہی کیفیت اور احساس کی شدت کا اندازہ نہیں ہوتا بلکہ ہر لفظ، اس کی ساخت، انتخاب، اس لفظ کاوہاں ہونا ہی اس کی حقیقی اور فطری جگہ کا پتہ دیتاہے۔گویا جذبے کی شدت مجموعی عبارت کے تاثر کے علاوہ لفظوں کے اپنے وجود میں بھی لبالب بھری ہوئی ہے۔
’’میرے چاروں طرف چیخوں کا سمند ر ہے۔زمیں کانپ رہی ہے۔ مکان اور گلیاں ایک دوسرے کے گلے مل رہی ہیں۔میرے وجود پر گرم گرم لہو کے چھینٹے پھیل رہے ہیں۔۔۔میرے قدموں میں دم توڑتا شہر چیخ رہا ہے۔‘‘(۲۵۹)
کبھی موت کے حوالے سے منظر، کیفیت سب متحر ک ہوجاتے ہیں۔اس حرکت میں حقائق کی تلخیوں کا رنگ گھلا ملا ہے۔یہاں اس کی خارجی سطحوں میں کربنا کی کا عنصر غالب نظر آتاہے۔
مجموعہ ’’ریت پر گرفت‘‘کے افسانوں میں موت اور فنا کا تصور قدرے پختگی کا حامل نظر آنے لگتا ہے۔یہ اس کی ارتقائی صورت کا غماز ہے۔ یہاں نہ تو ماحول سے جھنجھلاہٹ کا پہلے جیساانداز ہے اور نہ غصیلے پن سے مجبور ہو کر مرنے کی خواہش جنم لیتی ہے بلکہ اس میں فطری ، فکری اور حقیقی عناصر پیدا ہونے لگتے ہیں۔گوفرد موت کی حقیقت جاننے کے لئے متجس ہے لیکن دماغ میں خارجی ماحول کا انتشار نہیں ہے۔یہ کیفیت افسانہ ’’پھسلتی ڈھلوان پر نروان کا ایک لمحہ‘‘میں واضح طور پر چھائی ہوئی ہے۔
’’اور کیا حسن بھی عمر کے گھوڑے پر سوار ہوتا ہے اور کیا وہ بھی فنا کی پھسلتی ڈھلوان پر ہے۔اس نے افسوس سے دونوں ہاتھ ملے۔‘‘(۲۶۰)
’’پھر اس نے قبر کی چادر ہٹا کر اندر جھانکا۔اندر اندھیرا تھا۔میں قبر کے اندر اتر گیا۔‘‘(۲۶۱)
(یہاں موت اور قبر کی علامتیں محسوساتی سطحوں سے نکل کر تجرباتی حدود میں داخل ہو رہی ہیں۔)
’’لیکن اب قبروں کی آوازیں کون سنے گا؟اب تو سب نے اپنے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال لیا ہے۔‘‘(۲۶۲) (یہاں قبر زندگی کا اختتام، ایک اٹل حقیقت ہے جو فراموش ہو رہی ہے۔)
’’قبرستان ‘‘، قبرستان کا لفظ سنتے ہی اس کے ذہن میں پہلے قبر اور پھر باپ کے پھنسے پاؤں ابھرتے۔اسے ایسالگتا جیسے قبر کی دیواریں اسے چاروں طرف سے دبارہی ہیں۔وہ سکڑتاچلا جاتا۔ یہاں تک کہ صرف قبر ہی قبر باقی رہ جاتی۔‘‘(۲۶۳)
اس ضمن میں افسانہ ’’ڈوبتی پہچان‘‘اور ’’گمشدہ آواز کی دستک‘‘ کا مطالعہ بھی ناگزیر ہے۔رشید امجد کی فکری جہتوں نے اپنے وقت کے خارجی اور سیاسی حالات کا گہر ااثر لیاہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے موضوعات کی سطح کبھی ہموار اور کبھی نا ہموار ہونے لگتی ہیں اور خاص طور پر ان کا تصورِ موت جو مسلسل ارتقاء پذیری کی کیفیت سے گزرتا ہے ۔اس خارجی جبر کی شدت کو اپنے اندر جذب کرتاہے ۔یہاں تک موت کے حوالے سیاست میں تشدد کی کیفیت سمیٹے ہوئے ہیں۔’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘اور ’’ریت پر گرفت‘‘ کے افسانوں میں رشید امجد کے اسلوب کی پہچان بڑی منفرد ہے ۔جبکہ ’’سہ پہر کی خزاں‘‘ میں ایک خاص سیاسی شدت ابھر کر سامنے آتی ہے جس کو ماحول کا انتشار اور اس کے حوالے سے انسان کی بے توقیری کا عنصر تحریک دیتا ہے۔رشید امجد اس ضمن میں لکھتے ہیں:
’’سہ پہر کی خزاں ‘‘ میں ۵جولائی ۱۹۷۷ء سے ۴؍اپریل ۱۹۸۰ء کے افسانے شامل ہیں۔یہ سارا مجموعہ مارشل لا ئی جبر اور تشدد میں وجود میں آیا ہے۔‘‘(۲۶۴)
ان حالات میں فر دیقین اور بے یقینی کے درمیان معلق ہے۔ بے یقینی ، گمشدگی اور ذہنی انتشار اس پر غالب ہے۔ذات، راستے حتیٰ کہ جنازے بھی گم ہو رہے ہیں۔اسلوب ان حوالوں سے نئی کروٹ بدلتاہے۔اس دور کی کہانیوں میں قبر اور موت کی علامتیں نہ صرف زیادہ ہوگئی ہیں بلکہ ان میں جدت بھی پیدا ہو ئی ہے۔
’’تھکاوٹ سے چور راستے قبروں کے درمیان چپ چاپ لیٹے ہیں۔‘‘
’’قبرستان کی دیواروں پر آمنے سامنے ۔۔میں اوروہ۔‘‘(۲۶۵)
پروفیسر احمد جاوید اس حوالے سے لکھتے ہیں:
’’اس زمانے میں رشید امجد کے یہاں کنفیوژن نِت نئے رنگ اختیار کرتاہے۔کبھی تاریکی کی شکل میں ،کبھی موت کی شکل میں، پھر اس کے اعصاب شل ہوجاتے ہیں اور یقین متزلزل ہو جاتاہے۔‘‘(۲۶۶)
یہاں رات،تاریکی ،قبر اور موت کے مفاہیم کم وبیش ایک ہی معلوم ہوتے ہیں۔موت کے سناٹے میں ڈوبا ہوا تاریک شہر اور اس میں بے یقین اور خوف کے سمندر میں غوطہ زن فرد۔
’’گاڑھا اندھیرااور گاڑھا۔۔۔اور گاڑھا ہو گیاہے۔درخت، قبریں ،راستے گم ہو گئے ہیں۔‘‘(۲۶۷)
خونخوار ’’کتوں ‘‘اور رات کے سناٹے میں ’’الو کی گونجتی آواز‘‘یہاں نئی علامتوں کی شکل میں ظاہر ہے۔ پس منظر میں فرد کا خارجی ماحول بول رہا ہے۔پہلے موت محسوساتی سطحوں پر تجربہ نظر آتی تھی۔اب عملی تجربے سے گزرنے کا مرحلہ فرد کو در پیش ہے۔یہاں سمندر در پر دہ موت کی ہی علامت میں ابھرتا ہے۔ کچھ کہانیوں میں خارجی ماحول کا جبر نئے استعاروں کی شکل اختیار کرتا ہے۔حوالہ رات، موت اور تاریکی کا ہی رہتاہے۔
’’سردی ہاتھوں میں گینتی لیے اس کے جسم پر اس کی قبر کھو درہی ہے۔ اندھیرا گھپ۔۔۔‘‘(۲۶۸)
اس مخصوص پس منظر میں موت کے حوالے اور علامتیں بہت شدید نظر آتی ہیں اور مجموعہ’’پت جھڑ میں خود کلامی‘‘تک آتے آتے ان کے فکری سفر میں پھر ایک توازن اور فلسفیانہ رنگ ابھرنے لگتا ہے۔یہ فلسفیانہ رنگ اس سے پہلے ان کے تصورِ موت میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہاں وہ تجزیہ اور تاریخ کی صداقت سے موت کی حقیقت کا کھوج پاتے ہیں۔ خارجی اور داخلی حوالوں سے اس کی تہہ تک اترتے ہیں۔اس حوالے سے تشبیہیں،استعارے اور علامتیں بھی فرق ہوتی جاتی ہیں۔
’’سنسان ، خاموش، دبیز سناٹا،اس کے گرد کنڈل مارے بیٹھا ہے۔وہ آہستہ آہستہ چلتا مقبرے کے احاطہ میں آجاتا ہے۔سامنے اس کی قبر ہے۔ بیمار دِق کے مریض کی طرح ٹھہر ٹھہر کر، کانپ کانپ کر قبر کے سرہانے کھانسی کررہا ہے۔تویہ میری قبر ہے ۔اداسی احاطے میں بوند بوند ٹپک رہی ہے۔‘‘(۲۶۹)
یہ پورا افسانہ موت ، قبر اور اس کی حقیقت کے ساتھ اس کا مکمل اعتراف بھی ہے۔یہ اعتراف موت کے حوالے سے ایک نیا پہلو لئے ہوئے ہے۔محاورہ اسلوب بدل جاتاہے۔
’’مگر موت دندناتی اس کے تعاقب میں چلی آتی ہے اوروقت مکار عورت کی طرح دیدے نچانچا کر کہتاہے میں کسی سے مکالمہ نہیں کرتا۔۔۔‘‘(۲۷۰)
یہاں اس نقطہ نظر کی نشاندہی ملتی ہے کہ وقت دراصل موت ہی کا دوسرانام ہے۔ایک لافانی طاقت ہے ۔یہی موت کو رفتہ رفتہ وجود پر حاوی کرتا چلا جاتاہے۔موت کے تصور اور اس کی حقیقت میں اب وقت دخیل ہونے لگاہے۔افسانہ ’’بے راستوں کا ذائقہ ‘‘بھی موت کی لطافتوں اور ذائقوں سے بھر پور ہے اوریہ ذائقے تجربے کی عملی صورت اختیار کرتے نظر آتے ہیں۔یہاں فرد کی وہ بے قراری نظر آتی ہے جوکوئی نئی کیفیت پانے میں اتنا تجسس رکھے کہ بے پرواہ ہو کر تجربے کے سمندر میں کود جائے۔یہاں کیفیت ، احساس سب ختم ہوجاتے ہیں اور ایک منظر باقی رہ جاتاہے۔
’’اب صورت یہ ہے کہ وہ قبر میں چت لیٹا ہوا ہے ۔ قبر کے گرد اگرد اس کی بیوی، بچے ، ماں، بہن، بھائی، دوست، رشتہ دار گھیراڈالے کھڑے ہیں اور اسے قبر سے باہر نکلنے کے لئے کہہ رہے ہیں۔‘‘(۲۷۱)
مہدی جعفرلکھتے ہیں:
’’رشید امجد کے یہاں قبر کا وجود کم و بیش مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے موت اور قبر کی استعاراتی حیثیت بڑھ چڑھ کر قائم کی ہے۔ ہر افسانہ اس استعارے کی نئی شناخت لے کر سامنے آتاہے۔ ‘‘(۲۷۲)
کبھی موت کی بے آواز آہٹ کو وہ اس اندازسے بیان کرتے ہیں۔
’’موت سب سے پہلے خواب بن کر اس کی آنکھوں میں اتری اور صبح آنکھ کھلنے سے پہلے اپنا بدن چرا کر نکل گئی۔‘‘(۲۷۳)
یہاں انسان کے ساتھ موت کے وجودکی وابستگی آغاز سے انجام تک کا سفر ’’خواب‘‘اور ’’بدن چرا‘‘کر نکلنے کی کیفیت میں بیان ہوا ہے ۔صرف آہٹ ہے او رقصہ تمام ہو جاتاہے اور یہ آہٹ بھی غیر محسوس ہے جسے انتہائی موثر ترین انداز کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی
۱۔ ’’بند کھڑکیوں پر دستک کے دوران خود کلامی‘‘،’’گمشدہ آواز کی دستک‘‘،ص:۱۷۲
۲۔ مجید مضمر ، ڈاکٹر، رشید امجد کی افسانہ نگاری‘‘، ’’چہار سو‘‘ماہنامہ،جلد ۷،شمارہ جنوری ، فروری، ۱۹۹۸ء
مدیر اعلیٰ، سیّد جعفری ،ویسٹرجIIIالہ آباد، راولپنڈی، ص:۱۷تا ۲۳
۳۔ ’’بے چہر آدمی‘‘، ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے‘‘(کلیات)، ص:۱۶۱
۴۔ ’’پچھلے پہر کی موت‘‘، ایضاً ص:۱۸۷ ۵۔ ’’جلا وطن ‘‘، ایضاً ص:۲۵۴
۶۔ ’’ا کی موت پر ایک کہانی‘‘،ایضاً ص:۲۴۳ ۷۔ ’’بے چہرہ آدمی‘‘، ایضاً ص:۱۶۳
۸۔ ’’بند کھڑکیوں پر دستک کے دوران خود کلامی‘‘، ’’گمشدہ آواز کی دستک‘‘،ص:۱۶۷
۹۔ ’’بے نام خطوط‘‘، ایضاً ص:۲۱۷ ۱۰۔ ’’چورس دائرے‘‘، ایضاً ص۲۳۴
۱۱۔ ایضاً ص:۲۳۶ ۱۲۔ ایضاً ص:۲۳۷
۱۳۔ ایضاً ص:۲۳۹ ۱۴۔ ایضاً ص:۲۴۱ ۱۵۔ ایضاً ص:۲۴۱
۱۶۔ ’’جاتے لمحے کی آواز‘‘، ایضاً ص۲۴۷
۱۷۔ ’’پچھلے پہر کی موت‘‘، ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے‘‘(کلیات)ص:۱۵۱
۱۸۔ "Saadat Saeed, Beyond Wasteland of Perception"
۱۹۔ ’’بے چہر ہ آدمی‘‘، ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘ مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے‘‘(کلیات)ص:۱۵۷
۲۰۔ ’’پچھلے پہر کی موت‘‘، ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے‘‘(کلیات)ص:۱۸۴
۲۱۔ مجید مضمر ، ڈاکٹر ، رشید امجد ،ریت کے پیکروں کا خالق،
اردو کا علامتی افسانہ ، سٹی پبلشرز، ڈل گیٹ، سرینگر، ۱۹۹۰ء ص، ۱۸۰، ۱۸۱
۲۲۔’’ا کی موت پر ایک کہانی‘‘، ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘ مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے‘‘(کلیات) ص:۲۳۴
۲۳۔ ایضاً ص:۲۳۳ ۲۴۔ ’’ہابیل اور قابیل کے درمیان ایک مکالمہ ‘‘، ایضا ص:۲۷۲
۲۵۔ ’’سمندر قطرہ سمندر‘‘،ایضاً ص۲۱۲ ۲۶۔ ایضاً ص:۲۱۲
۲۷۔ ’’الٹی قوس کا سفر ‘‘، ایضاً ص: ۱۹۲
۲۸۔’’سمندر مجھے بلاتا ہے۔‘‘، ’’بھاگے ہے بیاباں مجھ سے‘‘ مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے ‘‘ (کلیات )، ص:۶۶۰
۲۹۔۔ نوازش علی، ڈاکٹر ، چہا رسو ،ص:۲۵
۳۰۔’’منجمد اندھیرے میں روشنی کی ایک دراڑ‘‘، ’’ریت پر گرفت‘‘ مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے‘‘(کلیات)، ص:۳۰۸ ۳۱۔ ’’شام ، پھول اور لہو‘‘، ایضاً ص: ۳۱۵
۳۲۔ ایضاً ص: ۳۱۵ ۳۳۔ ’’سمندر قطرہ سمندر‘‘، ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘ ایضاً ص: ۲۱۱
۳۴۔ ’’ا کی موت پر ایک کہانی‘‘، ایضاً ص۲۴۳ ۳۵۔ ایضاً ص: ۲۴۴
۳۶۔ ’’یاہو کی نئی تعبیر ‘‘، ’’ریت پر گرفت ‘‘، ایضاً ص:۳۲۰،۳۲۱
۳۷۔ ایضاً ص:۳۱۸ ۳۸۔ ایضاً ص:۳۲۰
۳۹۔ ’’تیز دھوپ میں مسلسل رقص‘‘، ایضاً ص: ۳۲۹
۴۰۔ٍ ’’دھوپ میں سیاہ لکیر‘‘، ’’سہ پہر کی خزاں‘‘، ایضاً ص:۴۲۲ ۴۱۔ ایضاً ص:۴۲۲
۴۲۔ ’’پیلا شہرِ سراب‘‘، ’’سہ پہر کی خزاں‘‘، مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے ‘‘(کلیات)، ص:۴۳۹
۴۳۔ایضاً ص:۴۳۸ ۴۴۔’’منجمد اندھیرے میں روشنی کی ایک دراڑ‘‘، ’’ریت پر گرفت ‘‘ ایضاً ص:۳۱۰
۴۵۔ ’’بے دروازہ سراب‘‘، ’’پت جھڑ میں خود کلامی‘‘ایضاً ص:۵۵۸
۴۶۔ ’’یخ بستہ شام‘‘، ست رنگے پرندے کے تعاقب میں‘‘ ص:۱۰۸
۴۷۔ ’’الجھاؤ‘‘، ایضاً ص:۱۱۷
۴۸۔’’بے خوشبو عکس‘‘، ’شعلہ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد‘‘ مشمولہ ’دشتِ نظر سے آگے‘‘(کلیات)،ص۸۶۰
۴۹۔ ’’بے کسئی پرواز ‘‘، ایضاً ص:۸۷۱ ۵۰۔ قمر جمیل ، خط بنام رشید امجد ،یکم دسمبر ، ۱۹۹۱ء
۵۱۔ مجید مضمر، رشید امجد کی افسانہ نگاری، چہا رسو،ص:۱۷
۵۲۔ اردو انسائیکلوپیڈیا، فیروز سنز لمیٹڈ، لاہور، ناشر عبدالحمید خان ، بار اول، ۱۹۶۲ء ص: ۴۷۶
۵۳۔ ’’دور ہوتا چاند‘‘، ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘، مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے‘‘(کلیات)ص:۱۵۲،۱۵۳
۵۴۔ رشید امجد، انٹر ویو، قر ۃالعین طاہرہ، مشمولہ ’’ست رنگے پرندے کے تعاقب میں‘‘ص:۱۳۶
۵۵۔’’لمحہ جو صدیاں ہوا‘‘، ’’بھاگے ہے بیاباں مجھ سے‘‘، مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے‘‘(کلیات)ص:۶۲۶
۵۶۔ ایضاً ص:۶۲۷ ۵۷۔ ’’جاگتے کو ملا دیوے خواب کے ساتھ‘‘، ایضاً ص:۶۷۲
۵۸۔ ’’ایک نسل کا تماشا‘‘، ’’شعلہ عشق سیہہ پوش ہوا میرے بعد‘‘، ایضاً ص: ۷۸۸،۷۸۹
۵۹۔ ’’بے خوشبو عکس‘‘، ایضاًص:۸۶۰ ۶۰۔ ’’بے کسئی پرواز‘‘، ایضاً ص۸۶۹
۶۱۔ ’’چپ فضا میں تیز خوشبو‘‘، ’’پت جھڑ میں خود کلامی‘‘، ایضاً ص:۴۶۳
۶۲۔ ایضاً ص:۴۶۴ ۶۳۔ ’’خواب آئینے‘‘، ایضاً ص:۵۲۵، ۵۲۶
۶۴۔ ’’آئینہ گزیدہ ‘‘، ’’ست رنگے پرندے کے تعاقب میں ‘‘ص:۷۲
۶۵۔’’منجمد موسم میں ایک کرن‘‘، ’’پت جھڑ میں خود کلامی‘‘، مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے‘‘ (کلیات ) ص:۵۳۰
۶۶۔ ’’سمندر مجھے بلاتا ہے‘‘، ایضاً ص: ۶۴۲ ۶۷۔ رشید امجد ، چہار سو، ص:۱۰
۶۸۔’لمحہ جو صدیاں ہوا‘، ’’بھاگے ہے بیاباں مجھ سے‘‘،مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے‘‘(کلیات ) ص:۶۲۴،۲۸ ۶
۶۹۔ ’’سمندر مجھے بلاتا ہے‘‘، ا یضاً ص:۶۵۷ ۷۰۔ ’’لمحہ جو صدیاں ہوا‘‘ ایضاً ص:۶۳۴
۷۱۔ ’’بے چہر ہ آدمی‘‘، ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘، ایضاً ص:۱۵۶
۷۲۔ ’’سمندر مجھے بلاتاہے‘‘، ’’بھاگے ہے بیاباں مجھ سے ‘‘ ایضاً ص:۶۴۹
۷۳۔ ’’شام کی دہلیز پر آخری مکالمہ‘‘، ایضاً ص:۷۱۱
۷۴۔ ’’سمندر مجھے بلاتا ہے‘‘، ایضاً ص:۶۴۸، ۶۴۹ ۷۵۔ ’’لمحہ جو صدیاں ہوا‘‘ ، ایضاً ص:۶۲۷
۷۶۔ ’’چپ صحرا‘‘، ایضاً ص۷۴۱، ۷۴۲ ۷۷۔’’بجھی چنگاریوں میں ایک چمک‘‘، ایضاً ص:۷۶۳
۷۸۔ ’’جنگل شہر ہوئے‘‘، ایضاً ص: ۶۷۹
۷۹۔ ’’شعلہ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد‘‘، مجموعہ ’’شعلہ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد‘‘، ایضاً ص: ۸۳۲
۸۰۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ ، دانش گاہِ پنجاب ، شعبہ اردو پنجاب یونیورسٹی ، لاہور جلد۶، ص:۴۲۸
۸۱۔ انتظار حسین ، ادب اور تصوف، علامتوں کا زوال، ص:۹۱
۸۲۔ رشید امجد ، انٹرویو قر ۃ العین طاہرہ، مشمولہ ’’ست رنگے پرندے کے تعاقب میں‘‘ص:۱۳۵
۸۳۔ ’’دشت کے ساتھ دشت ہونے کی لذت‘‘، ’’ست رنگے پرندے کے تعاقب میں ‘‘ص:۱۲۱
۸۴۔ ایضاً ص: ۱۲۲ ۸۵۔ ’’شہر بدری‘‘، ’’گمشدہ آواز کی دستک‘‘، ص:۳۰۸
۸۶۔ ایضاً ص:۳۰۹
۸۷۔’’لمحہ جو صدیاں ہوا‘‘، ’’بھاگے ہے بیاباں مجھ سے‘‘، مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے ‘‘(کلیات ) ص:۶۳۲
۸۸۔ ’’درمیان میں کھڑے ہوئے لوگ‘‘، ’’گمشدہ آواز کی دستک‘‘، ص:۱۸۳، ۱۱۸۵۸۹۔’’ٹوٹے پر لمحہ لمحہ زرد کبوتر‘‘، ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘، مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے ‘‘(کلیات ) ص:۱۳۵
۹۰۔ ’’نُچی ہوئی پہچان‘‘، ایضاً ص:۱۸۶ ۹۱۔ ’’سمندر قطرہ سمندر‘‘، ایضاً ص:۲۱۶
۹۲۔ ’’الٹی قوس کا سفر‘‘، ایضاً ص:۱۹۱
۹۳۔ ’’جاگتی آنکھوں کا خواب‘‘، ’’ریت پر گرفت‘‘، ایضاً ص:۳۴۲،۳۴۴
۹۴۔ ’’وقت اندھا نہیں ہوتا‘‘، ’’ست رنگے پرندے کے تعاقب میں‘‘ ص:۱۳
۹۵۔ ’’تلاش‘‘،ایضاً ص: ۴۶ ۹۶۔ ’الجھاؤ‘‘، ایضاً ص:۱۱۶
۹۷۔ ’’سمندر قطرہ سمندر‘‘، ’بے زار آدم کے بیٹے‘‘، ، مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے ‘‘(کلیات ) ص:۲۰۸
۹۸۔ ایضاً ص:۲۰۹ ۹۹۔ ’’نُچی ہوئی پہچان‘‘، ایضاً ص: ۱۸۷
۱۰۰۔ ’’آدھے دائرے کا نوحہ‘‘، ’’کاغذ کی فصیل‘‘ ، ایضاً ص:۲۶ ۱۰۱۔ ایضاًص:۲۸
۱۰۲۔ ’’سمندر قطرہ سمندر‘‘، ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘ایضاً ص:۲۱۴
۱۰۳۔ ’’عکسِ بے خیال‘‘، ’’شعلہ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد‘‘، ایضاً ص:۸۶۴
۱۰۴۔ ’’بے نام خطوط‘‘، ’’گمشدہ آواز کی دستک‘‘، ص:۲۲۰
۱۰۵۔’’ا کی موت پر ایک کہانی‘‘، ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘ ، مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے ‘‘(کلیات ) ص:۲۴۱
۱۰۶۔ ’’پچھلے پہر کی موت‘‘ایضاً ص:۱۸۲
۱۰۷۔ ’’صرف دو فرلانگ پہلے‘‘،’’ست رنگے پرندے کے تعاقب میں‘‘، ص:۱۳۰
۱۰۸۔ ’’چپ صحرا‘‘، ’’بھاگے ہے بیاباں مجھ سے‘‘، مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے ‘‘(کلیات ) ص:۷۴۱
۱۰۹۔ ’’پھسلتی ڈھلوان پر نروان کا ایک لمحہ‘‘، ریت پر گرفت‘‘، ایضاً ص:۲۹۱
۱۱۰۔ ’’یاہو کی نئی تعبیر ‘‘، ایضاً ص:۳۲۴
۱۱۱۔’’بند ہوتی آنکھ میں ڈوبتے سورج کا عکس‘‘،’’پت جھڑ میں خود کلامی‘‘، مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے ‘‘(کلیات ) ص:۴۹۰ ۱۱۲۔’’وقت اندھا نہیں ہوتا‘‘،’’ست رنگے پرندے کے تعاقب میں ‘‘ص:۱۴
۱۱۳۔ ’’سمندر قطرہ سمندر‘‘، ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘، مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے ‘‘(کلیات ) ص:۲۰۵
۱۱۴۔ ’’خالی ہاتھ شکاری اور تیز آہو‘‘،’’ست رنگے پرندے کے تعاقب میں‘‘، ایضاً ص:۱۱۲
۱۱۵۔ ’’شوق بندھن کی ناؤ میں‘‘، ایضاً ص:۸۷ ۱۱۶۔ ’’دن صدیوں کی ڈوری‘‘، ایضاً ص:۸۷
۱۱۷۔’’لمحہ جو صدیاں ہوا‘‘، ’’بھاگے ہے بیاباں مجھ سے ‘‘، مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے ‘‘(کلیات ) ص:۶۲۶
۱۱۸۔ ’’ہریالی بارش مانگتی ہے‘‘، ’’پت جھڑ میں خود کلامی‘‘، ایضاً ص۵۵۱
۱۱۹۔ ’’ثمر سے بے ثمر پیڑوں کی جانب‘‘، ایضاً ص:۵۷۴
۱۲۰۔ ایضاً ص:۵۷۷ ۱۲۱۔ مجید مضمر، چہار سو، ص:۱۷ ۱۲۲۔رشید امجد، ایضاً ص:۹
۱۲۳۔ ’’سمندر قطرہ سمندر‘‘، ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘، مشمولہ’’دشتِ نظرسے آگے‘‘(کلیات)،ص:۲۱۶
۱۲۴۔ ’’نارسائی کی مٹھیوں میں‘‘، ’’ریت پر گرفت‘‘، ایضاً ص:۲۸۲
۱۲۵۔ ’’پھسلتی ڈھلوان پر نروان کا ایک لمحہ‘‘، ایضاً ص:۲۹۲
۱۲۶۔ ’’لا= ؟‘‘، ’’ریت پر گرفت‘‘، ایضاً ص:۳۰۳
۱۲۷۔’’رشید امجد، رشید امجد سے گفتگو، قر ۃ العین طاہرہ مشمولہ ’’ست رنگے پرندے کے تعاقب میں‘‘ ص:۱۳۷
۱۲۸۔ پروفیسر عرفان صدیقی ،’’جدیدا فسانہ نگار رشید امجد کے خصوصی حوالے سے‘‘، غیر مطبوعہ
۱۲۹۔ مجید مضمر ، ڈاکٹر، ’’رشید امجد کی افسانہ نگاری‘‘، چہار سو، ص:۲۰
۱۳۰۔’’ہابیل اور قابیل کے درمیان ایک طویل مکالمہ‘‘، ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘، مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے‘‘(کلیات) ص: ۲۶۸ ۱۳۱۔ ’’کالے لفظو ں کا پل صراط‘‘، ایضاً ص:۱۶
۱۳۲۔ ’’بے پانی کی بارش‘‘،ایضاً ص:۲۶۴
۱۳۳۔ ’’بے پانی کی بارش‘، ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘،مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے ‘‘(کلیات ) ص:۲۶۶
۱۳۴۔ رشید امجد، انٹرویو قرۃ العین طاہر ہ، مشمولہ ست رنگے پرندے کے تعاقب میں‘‘ ص:۱۳۵
۱۳۵۔ ’’لا=؟‘‘، ’’ریت پر گرفت‘‘، مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے ‘‘(کلیات ) ص:۲۹۴
۱۳۶۔ ایضاً ص:۳۰۵ ۱۳۷۔ ’’سناٹا بولتاہے‘‘، ’’سہ پہر کی خزاں‘‘، ایضاً ص:۳۸۳
۱۳۸۔ ’’ریزہ ریزہ شہادت‘‘، ایضاً ص:۴۱۲ ۱۳۹۔ ’’تماشا عکس تماشا‘‘، ’’پت جھڑ میں خود کلامی‘‘، ایضاً ص:۵۱۴ ۱۴۰۔ ایضاً ص:۵۴۱ ۱۴۱۔ ایضاً ص:۵۱۵
۱۴۲۔مہدی جعفر ، رشید امجد کی کائنات، ’’الفاظ‘‘ دو ماہی ، جنوری تااپریل ۱۹۸۸ء، ایجوکیشنل بک ہاؤس ، علی گڑھ، ص:۱۳
۱۴۳۔ ’’تماشا عکس تماشا‘‘،’’پت جھڑ میں خود کلامی‘‘، مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے ‘‘(کلیات ) ص:۵۱۴
۱۴۴۔ ایضاً ص:۵۱۵ ۱۴۵۔ ایضاً ص:۵۱۵
۱۴۶۔ ’’منجمد موسم میں ایک کرن‘‘، ایضاً ص:۵۳۲
۱۴۷۔ ’’ٹوٹی ہوئی دیوار‘‘، ’’کاغذ کی فصیل‘‘، ایضاً ص:۵۴
۱۴۸۔ ’’سائے کا سفر‘‘، ایضاً ص:۷۲ ۱۴۹۔ ’’آدھے دائروں کا نوحہ‘‘، ایضاً ص:۲۸
۱۵۰۔ ’’لیمپ پوسٹ‘‘، ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘، ایضاً ص:۱۲۵ ۱۵۱۔ ایضاًص:۱۲۶
۱۵۲۔ ’’ریت پر گرفت‘‘، ایضاً ص:۱۹۶
۱۵۳۔ ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘، ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘، ایضاً ص:۲۱۹
۱۵۴۔ ’’لا=؟‘‘، ’’ریت پر گرفت‘‘، ایضاً ص:۳۰۱ ۱۵۵۔ ایضاً ص:۳۰۴
۱۵۶۔’’تیز دھوپ میں مسلسل رقص‘‘، ’’ریت پر گرفت‘‘، مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے ‘‘(کلیات ) ص:۳۳۷
۱۵۷۔ ’’ڈوبتی پہچان‘‘، ایضاً ص:۳۲۵
۱۵۸۔ ’’دھند‘‘، ’’ست رنگے پرندے کے تعاقب میں‘‘، ص:۵۵
۱۵۹۔ ایضاً ص:۵۶ ۱۶۰۔ ایضاً ص:۵۶
۱۶۱۔ ’’شہر بدری‘‘، ’’گمشدہ آواز کی دستک‘‘، ص:۳۰۳،۳۰۴
۱۶۲۔ رشید امجد، انٹرویو قر ۃالعین طاہرہ، مشمولہ ’’ست رنگے پرندے کے تعاقب میں‘‘، ص:۱۴۳
۱۶۳۔ ’’چورس دائرے‘‘، ’’گمشدہ آواز کی دستک‘‘، ص:۲۳۷
۱۶۴۔ ’’پھول تمنا کا ویران سفر‘‘، ’’ست رنگے پرندے کے تعاقب میں‘‘ص:۴۹
۱۶۵۔ ’’جاتے لمحے کی آواز‘‘،’’گمشدہ آواز کی دستک‘‘، ص:۲۴۴
۱۶۶۔’’ہوا کے پیچھے پیچھے‘‘،’’شعلہ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد‘‘، مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے ‘‘(کلیات ) ص:۸۱۵ ۱۶۷۔ ’’سفر جس سے واپسی نہ ہوئی‘‘،ایضاً ص:۸۳۶
۱۶۸۔ ایضاً ص:۸۳۸، ۸۳۹
۱۶۹۔ ’’وقت اندھا نہیں ہوتا‘‘، ’’ست رنگے پرندے کے تعاقب میں‘‘، ص:۱۵
۱۷۰۔ ایضاً ص:۱۹ ۱۷۱۔ ’’یخ بستہ شام‘‘، ایضاً ص:۱۰۸
۱۷۲۔’’آئینہ تمثال دار‘‘، ’’بھاگے ہے بیاباں مجھ سے‘‘، مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے ‘‘(کلیات ) ص:۷۱۸
۱۷۳۔ ایضاً ص:۷۱۹ ۱۷۴۔ ’’دریچے سے دور‘‘، ایضاً ص:۶۹۵
۱۷۵۔’’لمحہ جو صدیاں ہوا‘‘، ایضاً ص:۶۳۰، ۶۳۱ ۱۷۶۔’’جلا وطن‘‘، ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘، ص:۲۵۲
۱۷۷۔ ایضاً ص:۲۵۳ ۱۷۸۔ ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘، ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘، ایضاً ص:۲۲۱
۱۷۹۔ ’’پت جھڑ میں خود کلامی‘‘، ’’سہ پہر کی خزاں‘‘، مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے ‘‘(کلیات ) ص:۳۹۶
۱۸۰۔ ’’دھوپ میں سیاہ لکیر‘‘، ایضاً ص:۴۲۶ ۱۸۱۔ ’’بانجھ ریت اور شام‘‘،ایضاً ص:۴۳۰
۱۸۲۔ ’’پیلا شہرِ سراب‘‘، ایضاً ص:۴۳۹
۱۸۳۔ ’’سمندر مجھے بلاتاہے‘‘، ’’بھاگے ہے بیاباں مجھ سے‘‘، ایضاً ص:۶۴۱
۱۸۴۔ ’’بے پانی کی بارش‘‘، ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘،ایضاً ص:۲۶۱
۱۸۵۔ ’’دور ہوتا چاند‘‘، ایضاً ص:۱۵۲ ۱۸۶۔ ’’بے پانی کی بارش‘‘، ایضاً ص:۲۶۳
۱۸۷۔ ایضاً ص:۲۶۵ ۱۸۸۔ ’’یاہو کی نئی تعبیر‘‘، ’’ریت پر گرفت‘‘، ایضاً ص:۳۲۱
۱۸۹۔ ایضاً ص:۳۲۲ ۱۹۰۔ ’’وقت اندھا نہیں ہوتا‘‘، ’’ست رنگے پرندے کے تعاقب میں‘‘، ص:۱۵ ۱۹۱۔ ’’جواز‘‘، ایضاً ص:۳۰
۱۹۲۔ ’’خالی ہاتھ شکاری اور تیز آہو‘‘، ایضاً ص:۱۱۲
۱۹۳۔ ’’لیمپ پوسٹ‘‘، ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘، مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے ‘‘(کلیات ) ص:۱۳۰
۱۹۴۔ ایضاً ص:۱۳۲ ۱۹۵۔ ’’ٹوٹے پر ،لمحہ لمحہ زرد کبوتر‘‘، ایضاً ص:۱۳۵
۱۹۶۔ ’’پچھلے پہر کی موت‘‘، ایضاً ص:۱۸۲ ۱۹۷۔ ’’ریت پر گرفت‘‘، ایضاً ص:۱۹۶
۱۹۸۔ ایضاً ص:۱۹۶، ۱۹۷ ۱۹۹۔ ’’سمندر قطر ہ سمندر‘‘،ایضاً ص:۱۹۷
۲۰۰۔ ’’ا کی موت پر ایک کہانی‘‘، ایضاً ص:۲۳۷
۲۰۱۔ "Saadat Saeed, "Beyond Wasteland of Perception", "Art and Literature" "The News", Feb, 27,199 3
۲۰۲۔ ’’پچھلے پہر کی موت‘‘، ’’ بے زار آدم کے بیٹے‘‘ مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے ‘‘(کلیات ) ص:۱۸۳
۲۰۳۔ ’’پھیکی مٹھاس کا تسلسل‘‘، ایضاً ص:۲۵۴ ۲۰۴۔’’ا کی موت پر ایک کہانی‘‘، ایضاً ص۲۴۰
۲۰۵۔ ایضاً ص:۲۴۲ ۲۰۶۔ ’’بے پانی کی بارش‘‘، ایضاًص:۲۶۳
۲۰۷۔ ’’گملے میں اگا ہوا شہر‘‘، ’’سہ پہر کی خزاں‘‘، ایضاً ص:۳۷۹، ۳۸۰
۲۰۸۔ ’’بانجھ ریت اور شام‘‘،ایضاً ص:۴۲۸ ۲۰۹۔ ’’سناٹا بولتا ہے‘‘، ایضاً ص:۳۸۵
۲۱۰۔ نوازش علی ، ڈاکٹر، چہار سو، ص:۲۸
۲۱۱۔ ’’بند ہوتی آنکھ میں ڈوبتے سورج کا عکس‘‘‘، ’’پت جھڑ میں خود کلامی‘‘
، مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے ‘‘(کلیات ) ص:۴۸۹،۴۹۰
۲۱۲۔ ’کھلے دروازے پر دستک‘‘ایضاً ص:۳۰۵ ۲۱۳۔ ایضاً ص:۵۱۰
۲۱۴۔ ’’شہر بدری‘‘، ’’گمشدہ آواز کی دستک‘‘، ص:۳۰۵
۲۱۵۔ ’’سراب‘‘، ’’ست رنگے پرندے کے تعاقب میں‘‘، ص:۷۵
۲۱۶۔ ’’لا=؟‘‘،’’ریت پر گرفت‘‘، مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے ‘‘(کلیات ) ص:۳۰۲
۲۱۷۔ ’’پیلا شہرِ سراب‘‘، ’’سہ پہرکی خزاں ‘‘، ایضاً ص:۴۳۹
۲۱۸۔ ’’ڈوبتی پہچان‘‘،’’ریت پر گرفت‘‘، ایضاً ص:۳۶۱
۲۱۹۔ ’’میلا جو تالاب میں ڈوب گیا‘‘،’’سہ پہر کی خزاں‘‘،ایضاً ص:۳۹۰
۲۲۰۔ ’’ٹوٹی ہوئی دیوار‘‘،’’کاغذ کی فصیل‘‘، ایضاً ص:۵۴،۵۵
۲۱۲۔ ’’ریت پر گرفت‘‘،’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘، ایضاً ص:۱۹۷
۲۲۲۔ ’’تیز دھوپ میں مسلسل رقص‘‘،’’ریت پر گرفت‘‘، ایضاً ص:۳۲۹
۲۲۳۔ ’’تشبیہوں سے باہر پھڑپھڑاہٹ‘‘،’’ریت پر گرفت‘‘، مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے ‘‘(کلیات ) ص:۳۲۹،۳۳۲ ۲۲۴۔ ’’پت جھڑ میں خود کلامی‘‘،’’سہ پہر کی خزاں‘‘، ایضاً ص:۳۹۶
۲۲۵۔ ’’خواب آئینے‘‘،’’پت جھڑ میں خودکلامی‘‘،ایضاً ص:۵۲۶
۲۲۶۔’’بے ثمر عذاب‘‘، ایضاً ص:۵۴۴ ۲۲۷۔’’ثمر سے بے ثمر پیڑوں کی جانب‘‘ایضاً ص:۵۷۶
۲۲۸۔ ’’ریت پر گرفت‘‘،’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘، ایضاً ص:۱۹۵
۲۲۹۔ ’’یاہو کی نئی تعبیر‘‘، ’’ریت پر گرفت‘‘ایضاً ص:۳۱۷
۲۳۰۔ ’’پھسلتی ڈھلوان پر نروان کا ایک لمحہ‘‘، ایضاً ص:۲۹۳
۲۳۱۔ ’’تشبیہوں سے باہر پھڑپھڑاہٹ‘‘، ایضاً ص:۳۲۸ ۲۳۲۔ ایضاً ص:۳۳۰
۲۳۳۔ ’’منجمد اندھیرے میں روشنی کی ایک دراڑ‘‘، ایضاً ص: ۳۰۸ ۲۳۴۔ ایضاً ص:۳۱۰
۲۳۵۔ ایضاً ص:۳۱۰ ۲۳۶۔ ’’بے ثمر عذاب‘‘،’’پت جھڑ میں خود کلامی‘‘، ایضاً ص:۵۴۴
۲۳۷۔ ’’کھلی آنکھ میں دھند ہوتی تصویر‘‘، ایضاً ص:۵۶۳
۲۳۸۔ ’’ست رنگے پرندے کے تعاقب میں‘‘، مجموعہ ’’ست رنگے پرندے کے تعاقب میں‘‘ص:۲۳
۲۳۹۔ ایضاً ص:۲۷ ۲۴۰۔ ’’خالی ہاتھ شکاری اور تیز آہو‘‘، ایضاً ص:۱۱۲
۲۴۱۔ ’’شوق بندھن کی ناؤ میں‘‘، ایضاً ص:۱۲۸ ۲۴۲۔ ’’صرف دو فرلانگ پہلے‘‘، ایضاًص:۱۳۲
۲۴۳۔ ’’آئینہ گزیدہ‘‘، ایضاً ص:۷۲ ۲۴۴۔ ’’الجھاؤ‘‘، ایضاًص:۱۱۷
۲۴۵۔ رشید امجد ، انٹرویو قرۃ العین طاہرہ، مشمولہ’’ست رنگے پرندے کے تعاقب میں‘‘ ص:۱۴۴
۲۴۶۔’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘، مجموعہ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘، مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے ‘‘(کلیات ) ص:۲۲۷
۲۴۷۔ ’’جلا وطن‘‘، ایضاً ص:۲۵۱ ۲۴۸۔ ’’ا کی موت پر ایک کہانی‘‘،ایضاً ص:۲۳۲
۲۴۹۔ ایضاًص:۲۳۸ ۲۵۰۔ ’’پھیکی مٹھاس کا تسلسل‘‘، ایضاًص:۲۴۴،۲۴۷
۲۵۱۔ ’’جلا وطن‘‘، ایضاًص:۲۵۵ ۲۵۲۔ ’’سمندر قطرہ سمندر‘‘، ایضاًص:۲۱۳
۲۵۳۔ ’’دورہوتا چاند‘‘،ایضاًص:۱۵۲
۲۵۴۔ ’’سمندر مجھے بلاتا ہے‘‘،’’بھاگے ہے بیاباں مجھ سے‘‘، ایضاًص:۲۴۶
۲۵۵۔ ’’دل دریا‘‘،’’شعلہ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد‘‘، ایضاًص:۸۴۴
۲۵۶۔ ’’سمندر قطرہ سمندر‘‘،’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘،ایضاًص:۲۰۱،۲۰۲
۲۵۷۔ احمد جاوید ، رشید امجد کا فنی سفر ، چہار سو، ص:۳۹
۲۵۸۔ ’’دور ہوتا چاند‘‘،’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘، مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے ‘‘(کلیات ) ص:۱۵۲
۲۵۹۔ ’’سمندر قطرہ سمندر‘‘،ایضاًص:۲۱۱ ۲۶۰۔ ’’پھسلتی ڈھلوان پر نروان کا ایک لمحہ‘‘، ایضاًص:۲۹۴ ۲۶۱۔ ایضاًص:۲۹۵
۲۶۲۔ ’’لا=؟‘‘،’’ریت پر گرفت‘‘، ایضاًص:۳۰۴ ۲۶۳۔ ’’گمشدہ آواز کی دستک‘‘،ایضاًص:۳۴۹
۲۶۴۔ رشید امجد ، چہار سو، ص:۱۰
۲۶۵۔ ’’پت جھڑ میں خودکلامی‘‘،’’سہ پہر کی خزاں‘‘، مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے ‘‘(کلیات ) ص:۳۹۳،۳۹۴،۳۹۵ ۲۶۶۔ احمد جاوید ، رشید امجد کا فنی سفر، چہار سو،ص:۴۰
۲۶۷۔ ’’پت جھڑ میں خود کلامی‘‘، ’’سہ پہر کی خزاں‘‘،، مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے ‘‘(کلیات ) ص:۳۹۴
۲۶۸۔ ’’دھوپ میں سیاہ لکیر‘‘، ایضاًص:۴۲۵
۲۶۹۔’’لاشیئت کا آشوب‘‘، ’’پت جھڑ میں خود کلامی‘‘، ایضاًص:۴۸۳ ۲۷۰۔ ایضاًص:۴۸۶
۲۷۱۔ ’’بے راستوں کا ذائقہ‘‘، ایضاًص:۵۳۸
۲۷۲۔ مہدی جعفر، ’’رشید امجد کی کائنات‘‘، ، مشمولہ ’’دشتِ نظر سے آگے ‘‘(کلیات ) ص:۵۸۹
۲۷۳۔ ’’بے راستوں کا ذائقہ‘‘،’’پت جھڑ میں خودکلامی‘‘، ایضاًص:۵۳۴