ارشد خالد(اسلام آباد)
ہم اپنے بچپنے میں ساحل دریا پہ جاکے
پیروں کو بھر کے
ریت کے کچھ خوشنما سے گھر بناتے تھے
پھر اپنے پھول ہاتھوں سے
انہیں مسمار کر تے تھے
یہ لگتا ہے بڑے ہو کر بھی ہم اب تک۔۔۔
ابھی تک بچپنے میں ہیں
کہ اپنی خواہشوں کی جنتیں پانے کی خاطر
نیکیوں کے نام پر
جنت کے گھر تعمیر کرتے ہیں
پھر ان جنت گھروں کو خود جہنم زار کرتے ہیں
ہراپنی خوشنما تعمیر اپنے ہاتھ سے مسمار کرتے ہیں
فقط نادانیوں سے پیار کرتے ہیں