فیصل عظیم
تھرک تھرک کر
ساز کی دُھن پر
گھوم گھوم کر
جھوم جھوم کر
اپنا آپ اُٹھائے کوئی
صدیوں بعد
بہت مستی میں ناچ رہا ہے
جتنی آوازیں ہیں باہر
وہ سب نغمےٗ گویا
دل کی شہنائی سے پھوٹ رہے ہیں
دل کے ساز سے اُٹھنے والے
سُر سب منظر لُوٹ رہے ہیں