فیصل عظیم
اپنے چہرے پہ اک داستاں لکھ رکھی تھی
اور آنکھوں میں اپنی
میں کتنے سوالوںٗ جوابوں کی تحریر لے کر چلا تھا
مگر چہرہ پڑھنے کی فرصت کسے تھی!
کسے فکر تھی
کہ یقین اور حیرت کے یہ رنگ کس کے لئے ہیں
کسے جستجو تھی
میں کیا سوچتا ہوں
میں کیا کہ رہا ہوں
سبھی تو کسی اور وحشت میں گم تھے
مرے دوستو، لو
میں اپنا سا منہ لے کے پھر آگیا ہوں
مگر تم کو بھی اِس کی فرصت کہاں ہے !