مصطفیٰ شہاب(لندن)
ایمرسن ہاؤز
اک گورِغریباں ہے
سڑے حمام،اجڑے ہال۔۔
کونا کونا فریادی۔۔۔
کچن میں مستقل بد بو
چھتیس برسوں سے برساتی
دواروں کی دراڑوں میں چھپی
صدیوں کی تاریکی
مگر چاروں طرف
پھیلی ہوئی ہے شہر کی
خوش باش آبادی
بہت سے لوگ جو سڑکوں پہ
دروازوں کے سایوں میں
کسی محراب میں،پل کی کمانوں میں
سیاہی رات کی جسموں پہ اپنے اوڑھ لیتے ہیں
یہی بے گھر
ستم گر رتجگے کے بعد
میلی تھیلیوں میں
زندگی بھر کے اثاثے کو سمیٹے
صبح ہوتے ہی
ایمرسن ہاؤز آکر
اپنی سب بے خوابیاں چہرے کی دھو کے
کچھ غذا کھا کر
پرانی زندگی سے اپنا ناطہ جوڑ لیتے ہیں
سنا ہے ’’رچ‘‘ نئی تہذیب میں ایسا ہی ہوتا ہے
کبھی تو گندگی پر
ریشم و کمخواب کا پردہ گراتے ہیں
کبھی کر کے نمائش جسم کے ناسور کی
دولت کماتے ہیں
کبھی سب کوڑے کر کٹ کو
دکھاوے کی صفائی کے لیے
قالین کے نیچے چھپاتے ہیں