شہناز نبی
ہمارے جیسے عجیب لوگوں کی رنجشوں کا
ملال کس کو
زمین کرتی ہے بین
آنسو فلک بہاتا ہے چپکے چپکے
فضا میں سسکی سی تیرتی ہے
ہیں سر بہ زانو تمام منظر
کہیں چھِنی ہے کسی کی گڑیا
کہیں پھٹی ہیں نئی کتابیں
کسی کی شہ رگ پہ کوئی جھپٹا
کسی کی گلیوں میں خون بکھرا
سنا ہے ہم نے کہ اس شجاعت پہ تمغہ ملے گا اس کو
بڑی نفاست سے اس نے چھانٹے ہیں اپنے ریوڑ
مویشی سارے بٹے ہوئے ہیں
بہ رنگ و ذات ونسل ان کے بنے طویلے
سب اپنی خوشیوں ،غموں کو بانٹیں گے اپنی حد میں
کہ بھیڑ بکری سے مل نہ پائے
نہ گائے بھینسوں میں ہوں کلیلیں
سنا ہے اس کے نظامِ ملکی پہ سب ہیں نازاں
اسے ہی بخشیں گے پھر سے وہ منصب ہزاری
ہمارے جیسے عجیب لوگوں کی آنکھوں میں
کیوں ہے اتنا پانی