وزیر آغا
بہت اندر کی دنیا دیکھ لی
باہر بھی اب دیکھیں ؍ سمندر کی ہوا پھانکیں
مکانوں پر لکھے نمبر پڑھیں
کھوئے ہوؤں کو رات بھر ڈھونڈیں
جلائیں آگ ٹھنڈی راکھ سے لبریز چولہے میں
سُنیں بھوری،پرانی کیتلی
کے بجتے دانتوں سے نکلتی بھاپ کی آہیں
اُٹھائیں فرش سے چڑیا کا ٹوٹا گھونسلا؍ پھر فریم لکڑی کا
نکالیں فریم کی کمزور مٹھی میں پھنسی تصویر
جس کے نقش سارے بھُر چکے ہیں
سُنیں اندھے مکاں کی تہہ سے آتی
پھول سی زخمی صدا ؍ تتلی کی صورت
نرم پنکھوں سے ہمیں چھوتی
یقین و بے یقینی سے گزرتی
کہیں :ہم لوٹ آئے ہیں
نکل آئے ہیں ہم ؍ اپنے بدن کے تنگ معبد سے
کہیں اُس سے کہ تم بھی
اب نکل آؤ
زمیں کی راکھ ہوتی قبر کے
بے نور محبس سے۔۔۔۔!