کہا کس نے
مکاں بوڑھے نہیں ہوتے!
کبھی تم بھی
سمندر پار جانے پر اگر مجبور ہو جاؤ
تو دیکھو گے
کہ جب دھرتی
پگھلتے،ٹمٹماتے آخری ایام میں
تم کو بلائے گی
اور اک ریشم کی ڈوری سے بندھے
تم لَوٹ آؤ گے
تو وہ چاندی سا اجلا گھر
جسے روتا ہوا تم چھوڑ کر
پردیس کی جانب سدھارے تھے
خمیدہ ،بھاری جُثّہ
اپنے سُوجے پاؤں پر رکھے
پُرانی،کتنے خم کھاتی
لرزتی،چرچراتی سیڑھیاں اُترے گا
اور دہلیز پر رُک کر
تمہیں سینے سے چمٹا کر کہے گا:
یار ، اتنی دیر کیوں کر دی!