ڈاکٹر عادل صدیقی(پسرور)
پرندے آشیاں بھولے ہوئے ہیں
مکان و لا مکاں بھولے ہوئے ہیں
بہت بے سمت ہے اونٹوں کا چلنا
انہیں اب سارباں بھولے ہوتے ہیں
انہیں اب در بدر ہونا ہے لازم
جو تیرا آستاں بھولے ہوئے ہیں
نہیں جو آشنا تیری گلی سے
وہ سمجھو ہر جہاں بھولے ہوئے ہیں
مسخر کر چکا تاروں کو کوئی
مگر ہم آسماں بھولے ہوئے ہیں
ہمیں گو یائی کا دعویٰ ہو کیونکر
الٰہی اک فکر کھا ئے جارہی ہے
کہ ہم خود کو کہاں بھولے ہوئے ہیں
بڑھی ہے سرکشی لہروں میں جب سے
سفینے بادبان بھولے ہوئے ہیں
چمن کی عارضی کوشیوں میں کھو کر
بہارِ اک راز باقی رہ گیا ہے
کہ راز اب رازداں بھولے ہوئے ہیں
ستم کی انتہا عادل یہی ہے
ستارے کہکشاں بھولے ہوئے ہیں