عنصرؔنیازی
میں سوچتا ہوں کہ خود کو لہو لہو کر کے
ملا ہی کیا ہے مجھے تیری آرزو کر کے
یہ عشق ہے کہ جنوں ہے بتاؤ تم ہی مجھے
سکون ملتا ہے کیوں تیری گفتگو کر کے
میں پہلے ہی سے جو خانہ بدوش تھا تو پھر
تمہی بتاؤ ملا کیا ہے کُوبہ کُو کر کے
تمہیں خبر ہی نہیں ہے تمہارے قدموں پر
تھکا ہوا ہے کوئی آج تک وضو کر کے
کوئی نہ کوئی وجہ ہو گی اس کے در پردہ
ضو زخم کھولے ہیں اس نے مرے رفو کر کے
لبو ں پہ پیاس تو پاؤں میں ان گنت چھالے
میں زخم زخم ہوں کیوں تیری جستجو کر کے