عنصرؔنیازی (پسرور)
ایک زمانہ جس کی خواہش کرتا تھا
سوچوں تو وہ شخص بھی میرے جیسا تھا
ایک مجھے ہی تنہائی سے وحشت تھی
اک میں ہی تھا جو دنیا میں تنہا تھا
مجھ سے جسم کی دیواریں نہ ٹو ٹ سکیں
ورنہ میں تو جیل سے بھاگنے والا تھا
ڈوب رہاتھا ہر اک اپنی مرضی سے
اُس کی آنکھیں تھیں یا گہرا دریا تھا
ٹوٹ گیا تھا تو پھر عنصرؔ غم کیسا
دل میرا بھی کانچ کا ایک کھلونا تھا