نوید صادق(لاہور)
بگڑ گئے ہیں جو کچھ نقش، وہ دوبارہ بنا
فلک پہ پھول کھلا، خاک پر ستارہ بنا
تری کہانی میں میرا بھی ذکر آئے گا
رفیقِ تیرہ نظر! پھر سے گوشوارہ بنا
یہ عمر میں نے ترے رنج میں اَکارت کی
بنانا ہو تو مجھے سکھ کا استعارہ بنا
سنائی دینے لگی جب ندا زمانے کی
یہ میرا جسم مری روح کا سہارا بنا
کوئی بھی رُت ہو، ہمیں یاد آتے رہتے ہو
اس اہتمام سے کوئی، کہاں ہمارا بنا
تباہیوں نے مری تم سے استفادہ کیا
یہ وقت میرا نہیں بن سکا، تمہارا بنا
بکھیر خاک مری ہر طرف، جہاں تک ہو
اور اس کے بعد مجھے چاک پر دوبارہ بنا
میں اپنے آپ میں لوٹوں تو یہ ثبوت ملے
وہ شاہکار، مری فہم سے بھی پیارا بنا
نویدؔ آتشِ ایقان میں نہ جل تنہا
گماں رسیدہ کسی لمحے کو سہارا بنا