غلام نبی اعوان(اسلام آباد)
عشق عہدِ بے وفا میں بے نوا ہو جاے گا
آنکھ استنبول سینہ قرطبہ ہو جائے گا
رات لمبی ہے تو باہم گفتگو کرتے رہو
بات چل نکلی تو بہتوں کابھلا ہو جائے گا
ان بھری گلیوں میں پھرتا رہ، اسی میں خیر ہے
اپنے اندر جا چھپا تو لا پتہ ہو جائے گا
سر بُریدہ لفظ مجھ سے رات یہ کہنے لگے
ا ب نہ بولو گے ت کاغذ کربلا ہو جائے گا
وہ میری آواز کا قاتل بھی ہے مقتول بھی
اس کا ، میرا آج کل میں فیصلہ ہو جائے گا